• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشرقِ وسطیٰ ہو یا یورپ، مشرقی یورپ ہو یا جنوبی ایشیاء ہر جگہ امریکہ اپنی فوجوں کی موجودگی ضروری سمجھتا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو وہ اپنا ہمسایہ جانتا ہے، اسی ”حقِ ہمسائیگی“ کی ادائیگی کیلئے جاپان میں آج بھی 48 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ (صحیح تعداد سینتالیس ہزار نو سو ننانوے ہے کہ ایک امریکی فوجی کو زنالجبر کے جرم میں جاپان سے نکال دیا گیا ہے) مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کو ختم ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن سعودی عرب اور کویت وغیرہ کو 20 ہزار امریکی سپاہیوں کو اپنی سرزمین پر رکھنا اور ان کے تمام اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جیسے عراق نے اب تک جنگ کی قیمت 12 ہزار ارب ڈالر ادا کی ہے جبکہ صرف چار سو ارب ڈالر امریکہ نے ادا کئے ہیں۔ جنوبی کوریا میں 37 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں اور اب افغانستان…
واشنگٹن میں پروجیکٹ برائے نئی امریکی صدی کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے اس کے ذمہ آنے والی صدی میں امریکی پالیسی واضح کرنا ہے اس ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے ”اب دنیا میں اس طرح کی عظیم تر سلطنت تو قائم نہیں کی جاسکتی جیسے کہ پہلے وقتوں میں روم تھی یا پھر گزشتہ صدی میں برطانیہ نے کی تھی اور تین چوتھائی دنیا کو اپنا غلام بنا لیا تھا لیکن دنیا میں امریکی سامراج کے قیام کی کوشش ضرور کرنی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب امریکہ مختلف ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلانے کی بجائے مختلف ممالک میں نئے فوجی اڈے قائم کرے۔ آنے والی دھائیوں میں یورپ، مڈل ایسٹ اور ایشیا کے ملکوں میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانا اور ان خطوں کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کرنا امریکہ کا اہم مشن یا مقصد ہوگا“ شاید آپ کو یاد ہو کہ صدر بارک اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں مختلف جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے دوسرے ملکوں سے امریکی افواج کو واپس بلانے کی بات کی تھی لیکن اس وقت بھی امریکی ماہرین دفاع نے اس حکمت عملی کو ”غیر حقیقی“ قرار دیا تھا۔ لیکن اب حالیہ صدر اوباما کے بیان یا فرمان کے مطابق مزید 25 ہزار امریکی فوجی افغانستان کی سرزمین میں موجود رہینں گے جن میں سے دو ہزار غارت گر سرزمین افغانستان میں بلیک واٹر کا رول کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما ان دنوں اسی زبان میں گفتگو کر رہے ہیں جو ماہرین دفاع کی مرضی اور پالیسی کے عین مطابق ہے۔ پروجیکٹ برائے نئی امریکی صدی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈونیلی (Donnelly) کے اپنے الفاظ میں کہ:”جتنی جلدی امریکہ اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ اسے دنیا میں ایک نئے طرز کی سلطنت قائم کرنا ہے اتنا ہی اس کے حق میں مفید ہوگا“
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یورپ میں امریکی بحری بری فوجیوں اور فضائیہ و مسلح افواج کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف 2001ء میں جب جارج بش نے اقتدار سنبھالا امریکہ کے سر پر قرض کا بوجھ پانچ اعشاریہ چھ ٹریلین ڈالر تھا جسے 2008ء میں کانگریس نے قرض کی حد نو ٹریلین تک جانے کی اجازت دے دی تھی اور آج اسی قرض کا بوجھ 26 ٹریلین کے لگ بھگ پہنچ گیا ہے اور امریکہ ہے کہ ایران پر حملہ آور ہونے کیلئے پرتول رہا ہے اس کے بعد قرض کا کیا پہاڑ ٹوٹے گا اس کو سمجھنے کیلئے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔
بش انتظامیہ جنگ کے پھیلاؤ اور جاری رکھنے کے جواز میں اب یہ کہتی ہے کہ مقصود ”آزادی“ اور ”جمہوریت“ ہے نہ کہ مالِ غنیمت و کشور کشائی۔ جنگ کے مخالفین کا گروپ WSWS کہتا ہے کہ یہ پہلے سے بھی بڑا اور فحش جھوٹ ہے، جنگ آزادی کیلئے نہیں غلامی کیلئے ہے یہ فتح، لوٹ مار، مالِ غنیمت اور کشور کشائی کیلئے شروع کی گئی ہے۔ آج مجھے امریکہ کے حوالے سے منشی پریم چند کی ایک کہانی کا وہ کردار شدت سے یاد آرہا ہے جسے سرپنچ ہونے کی وجہ سے اپنے خلاف مقدمہ کا فیصلہ خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ یعنی مدعی بھی، ملزم بھی، گواہ بھی اور جج بھی ایک ہی کردار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس نے جو فیصلہ کیا ہوگا اسے چنداں اب بتانے کی ضرورت نہیں
محبت ایسی دنیا ہے کہ جس میں
گلستاں کم ہیں ویرانے بہت ہیں
تازہ ترین