• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:توقیر لون۔۔ملٹن کینز
کچھ دن پہلے طلباء کی ایک وڈیو وائرہوئی جس میں طلباء سوشل ازم کے حق میں، اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی اور طبقاتی معاشرے میں استحصال کے خلاف نعرے مارتے دکھائی دئیے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی کھل کر رائے دی۔ رائے دینے والوں میں ایک طبقہ ایسا تھا جو طلباء مارچ کے حق میں تھا، دوسرا اس سے الگ سوچ اور رائے رکھنے والا اور تیسرا طبقہ وہ تھا جس کی اکثریت کا مقصد دشنام طرازی تھا۔ آخر الذکر میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو طلباء یا مزدور یونینز کےکردار اور اشتراکیت یا سوشلزم کے مفہوم اور مقاصد سے سرے سے ہی نابلد تھے۔ ان کے نزدیک سوشلزم شاید اس بلا کا نام تھا جو مغرب مسلمانوں پر یا اسلامی نظام پر تھوپنا چاہتا تھا تا کہ اسلام کا نام لیوا اس دنیا سے ختم ہو جائے لیکن جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ڈیموکریسی یعنی جمہوریت کیسی ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ جمہوریت تو اچھی ہوتی ہے بلکہ اس کی بنیاد تو اسلام نے خلفائے راشدین ؓکے دور میں رکھی تھی۔ ان لوگوں کا یہ جواب صرف اور صرف اس وجہ سے تھا کہ وہ ڈیمو کریسی کو تو عام فہم میں جمہوریت کے نام سے جانتے تھے لیکن سوشلزم یا اشتراکیت یا جسے آسان الفاظ میں اعتدال دولت (آمدنی/دولت کی منصفانہ تقسیم) کہا جا سکتا ہے، سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک مغربی پروپیگنڈا سمجھتے تھے۔ حالانکہ دیکھا جائے دونوں لفظ ہم نے مغرب سے مستعار لیے ہیں لیکن ایک لفظ کو اپنا لیا اور دوسرے لفظ کو بوجہ لاعلمی کوڑے دان میں پھینک دیا۔ میرے خیال میں سوشلزم اور کمیونزم دونوں میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ سوشلزم ، Social یعنی سماج سے اخذ کیا گیا ہے اور کمیونزم commune یا کمیونٹی یعنی لوگوں کا گروہ سے نکلا ہے ۔ اگر ان دونوں الفاظ پر غور کیا جائے تو دونوں کا تعلق لوگوں یا عوام سے ہے جو اکٹھے ایک کمیونٹی کی صورت میں رہتے ہیں۔ معاشی نقطہ نگاہ سے سوشلزم اور کمیونزم دونوں سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک ایسی مزاحمتی تحریک ہے جس کا مقصد عام آدمی یا مزدور یا پرولتاریہ جو معاشرے کا پساہوا طبقہ تھا کو بورژوازی یا سرمایا داروں کے استحصال سے آزاد کرانا، زرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لا کر دولت یا آمدن کو عوام میں مساوی تقسیم کرنا ہے۔ معاشی طور پر سوشلزم اور کمیونزم میں فرق یہ ہے کہ سوشلزم کمیونزم کی ابتدا لوئر لیول کی سٹیج ہے جسے سرمایا داری نظام سے کمیونزم کی طرف منتقلی کا مرحلہ کہا جا سکتا ہے ۔ سوشلزم میں بورژوازی یعنی سرمایاداری نظام کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا۔ سیاسی طور پر ریاست میں اصلاحی تبدیلیوں کے حصول کے لیے سوشلزم جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ یعنی سوشلزم جمہوری بنیادوں پر پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کر کے معاشرے میں بتدریج اصلاحات نافذ کرنے کا حامی ہے۔ جبکہ کمیونزم سوشلزم کی مکمل اور آخری اسٹیج ہے ۔ کمیونزم معاشی اصلات کے حصول کے لیے اور زرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لانے کے لیے جمہوریت کی بجائے انقلاب اور آمریت پر یقین رکھتا ہے۔ جمہوری سوشلزم اور کامونزم کو سمجھنے کے لیے 1951 میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ھونے والی سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس جو کہ 23 ملکوں کی سوشلسٹ جماعتوں کی نمائندہ کانفرنس تھی، کے اعلامیہ کو اگر پڑھا جائے تو اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کامونزم کا جدید سوشلزم میں حصہ داری کا دعویٰ نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ اس نے سوشلزم کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ کمیونزم نے ایک تشدد آمیز نظریہ روشناس کروایا ہے جو کہ مارکسزم کی اس روح کے متضاد ہے کہ جہاں سوشلزم کا مقصود اس استحصال کو ختم کرناہے جو ایک سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں انسان کو مختلف طبقات اور گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ وہاں کامونزم صرف ایک پارٹی کی آمریت کے بل بوتے پر اس طبقاتی تقسیم و امتیاز کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس اعلامیہ میں جدید یا جمہوری سوشلزم اور کمیونزم میں واضح فرق کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس کی رو سے اگر غور کیا جائے تو دنیا میں کئی ترقی یافتہ ممالک ایسے ہیں جن میں جدید سوشلزم یا جمہوری سوشلزم رائج ہے۔ ان ملکوں میں سوشلسٹ ڈیموکریٹ، سوشلسٹ لیبر ڈیموکریٹ یا لیبر پارٹیز موجود ہیں جو کامیابی کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ جن میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سویڈن، کینیڈا، وغیرہ شامل ہیں۔ ان ممالک میں جمہوری سوشلزم کمیونزم کے برعکس تمام زرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت کے حق میں نہیں ہے لیکن چند بنیادی ضروریات مثلاً مفت حفظان صحت کی بنیادی طبی سہولیات ، تعلیم اور ہر شہری کو کامیاب زندگی گزارنے کے یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نیز ان ممالک میں مذہب پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں تمام کمیونٹیز اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اسکا پرچار کرنے میں آزاد ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے سوشلزم کو سمجھنے کے لیے ایک متوازن اور معتدل معاشرے کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ ابتدائے اسلام میں جس اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں آیا اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ ﷺکا فرمان ھے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے لیے پسند کرے وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ اسکی سب سے اعلی مثال کہ جب حضورﷺ نے مدینہ کے انصار اور مکہ کے مہاجرین کے مابین اخوت کی بنیاد رکھی تو مدینہ کے انصارنے جذبہ محبت اور اشتراک میں اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ گھر بار زمینیں اور مال مویشی تک بانٹ دیئے۔ یعنی اسلامی معاشرے نے کثرت دولت سے پیدا ھونے والے طبقاتی فرق کو مٹا کر دولت کی اجتماعی تقسیم اور سب کے لیے مساوی مواقع آمدن کو فروغ دینے کے لیے ایک مثالی ریاست کا قیام عمل میں لایا۔ خلافت راشدہ ؓکے دور میں خلفاء نے بھی انہی روایات کو برقرار رکھا۔ خلفاء نے خود بھی سادگی اختیار کی ، معاشرے میں اعتدال پسندی کو فروغ دیا اور غربا و مساکین کے حقوق کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ انکی ضروریات زندگی پر بھی گہری نظر رکھتے ھوئے انہیں پورا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابو بکرؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک غریب شخص کی کمائی سے زیادہ اپنی تنخواہ مقرر کرنا گوارا نہ کیا ۔ آپ نے کمزور، بوڑھوں اور اپاہجوں اور ناکارہ ذمیوں کے لیے وظائف بھی مقرر کیے۔ اسی طرح حضرت علیؓ ایک خلیفہ ہونے کے باوجود کھجوریں بیچا کرتے تھے، اور بیت المال میں موجود مال کو تمام غربا اور مساکین میں مساوی طور پر بانٹ دیا کرتے تھے۔ آپ اسلامی مال خانے میں مال کو جمع کیے رکھنے کے حق میں بالکل نہ تھے۔ یوں دیکھا جائے تو دولت کی منصفانہ تقسیم اور زرائع آمدن یا روزگار کے مساوی مواقع کا تصور اسلام میں کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اسلام نے تو سب سے پہلے اس تصور کو پیش کیا۔ اور اپنے ابتدائی دور میں ہی اسلام نے تمام مسلمانوں کے مابین محبت ،ایثار اور اشتراک کا عملی نمونیہ پیش کر کے دکھایا۔ لیکن اسکے بعد جب ملوکیت کا دور شروع ھوا تو اقربا پروری اور دیگر قباحتوں کی وجہ سے جس ریاست مدینہ کی بنیاد حضورﷺ اور خلفائے راشدین ؓنے رکھی تھی اس کا تصور بھی مدھم پڑتا گیا۔ سوشلزم نے بر صغیر میں بھی ان لوگوں کو جو معاشی استحصال کا شکار تھے، بڑی حد تک اپنی طرف راغب کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے علامہ اقبال کو بھی مسلمانوں کی معاشی خستہ حالی کا حل صرف سوشل ڈیموکریسی میں نظر آ رہا تھا۔ مئ 1936 سے نومبر۔ 1938 تک قائد اعظم کو لکھے گئے خطوط میں علامہ اقبال نے بھی مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا حل سوشل ڈیموکریسی یعنی اشتراکی جمہوریت قرار دیا انکے مطابق مسلمانوں کی معاشی مسائل کا حل ایسی سوشل ڈیموکریسی تھا جسےشریعت اسلامیہ کی تائید حاصل ہو ۔ بعد ازاں قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے اسے باقاعدہ طور پر اسلامی سوشلزم کا نام بھی دیا۔ جس میں اسلامی سوشلزم کی اساس دولت کی مساویانہ تقسیم کی بجائے سب کے لیےمساوی مواقع فراہم کرنا تھی۔ سوشلزم کا تعلق چونکہ سماج یا معاشرے سے ہے اور یہ اس معاشرے میں مختلف مسائل کا مطالعہ اور ان کا حل پیش کرتا ہے جیسے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی وغیرہ کو سائنسی مضامین کا درجہ حاصل ھے اسی طرح سوشلزم کو بھی سماجی سائنس کہا جا سکتا ھے۔ سوشلزم معاشرے میں عام آدمی کے بنیادی حقوق کی بات کرتا ھے اور جبر، استحصال، سرمایادارنہ نظام اور اجارہ داری سے پاک معاشرے کا پرچار کرتا ھے۔ یہی وجہ ہے کہ لال لال کے نعرے اور سوشلزم کا نام سن کر کچھ لوگوں کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گر جاتی ہے۔ یہ لوگ سوشلزم سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں ؟ اسکے لیے معاشی نظام میں جدید سوشلزم کا مطالعہ ضروری ہے۔ جدید یا جمہوری سوشلزم کا اصل مقصد سیاست اور دولت یا ذرائع آمدن پر صرف ایک طبقہ کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہے۔ ملکی سیاست میں عام ادمی کی رسائ اور معاشرے میں آمدن کی غیر منصفانہ تقسیم اور معاشی ناہمواری کو کم کرنا ہے تاکہ پورا معاشرہ مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔ 
تازہ ترین