اسلام آباد (طارق بٹ) ملک کی اعلیٰ عدلیہ پیر سے نئے ہفتے کے دوران اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے متعلق چار اہم مقدمات کی سماعت کرنے جا رہی ہے۔ ایک درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں ہو رہی ہے جو نون لیگ کی نائب صدر اور معزول وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف نے جمع کرائی ہے۔
انہوں نے لندن جانے کے لیے ایک مرتبہ جانے کی اجازت مانگی ہے تاکہ وہ اپنے بیمار والد کو دیکھ سکیں اور عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج اور پاسپورٹ واپس کیا جائے۔
مریم کو نیب نے 8؍ اگست کو چوہدری شوگر ملز کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ 4؍ نومبر کو انہیں لاہور ہائی کورٹ نے 2-2؍ کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا، ساتھ ہی انہیں اضافی 7؍ کروڑ روپے اور پاسپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنی تازہ ترین درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد کی طبیعت ناساز ہے اور وہ شدید دبائو کا شکار ہوگئی ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے موقع پر اپنے والد کے ساتھ نہیں ہیں جب انہیں تیمار داری کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ان پر منحصر ہیں۔
درخواست میں انہوں نے اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کا بھی ذکر کیا ہے جو گزشتہ سال لندن میں انتقال کر گئی تھیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اور ان کے والد کو آج تک اس بات کا دکھ ہے کہ وہ اس وقت اپنی والدہ کے ساتھ نہیں تھیں جب وہ بستر مرگ پر تھیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے حکومت اور نیب کے مفرور ہونے کے متعلق خدشات غیر منطقی ہیں۔ اس کے بعد منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نواز شریف کی درخواست کی سماعت کرے گا۔
یہ کیس نیب عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کیخلاف ہے جو ویڈیو اسکینڈل میں شامل جج ارشد ملک نے سنایا تھا۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ فیصلے میں قوانین اور حقائق کا خیال نہیں رکھا گیا اور کیونکہ یہ فیصلہ دائرہ اختیار نہ ہونے کے باوجود سنایا گیا۔