• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری

پانچویں صدی اپنی انتہا کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں تھی، آفتابِ رسالت، جمال جہاں تاب سے نگاہِ انسانی کو محروم ہوئے عرصہٴ دراز گزرچکا تھا ،دنیائے اسلام نت نئے فتنوں میں مبتلا تھی ، انسان اخروی زندگی سے بے بہرہ اور دنیاوی لذتوں میں مست نظرآرہے تھے،ایسے میں رحمتِ حق جوش میں آئی اور سرزمین بغداد سے چشمہٴ ہدایت کو جاری کیا جس سے ایک خلق کثیر فیض یاب ہوئی،یہ وہی عراق ہے، جو ابتدا ہی سے علم وعمل کا گہوارہ رہ چکا ہے، یہاں ایسی ہستیاں وجود میں آئیں، جنہوں نے پیاسے اور تشنہ لوگوں کو حقائق اور معارف سے سیراب کیا اوروہ منبع جاری کیا جس سے دبستانِ علم وعمل لہلہا اٹھا، تاریخ شاہد ہے کہ اس تہذیب وتمدن کے گہوارے سے مختلف بلبلانِ علم وعمل نے جنم لیا، اسی سر زمین پر وہ ذاتِ عالی مرتبت پیدا ہوئی، جنہیں دنیا ’’ غوث الاعظم ، غوث الثقلین ، ‘‘ جیسے القابات سے یاد کرتی ہے ۔ یعنی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ۔ آپ کی ولادت باسعادت ملک ایران کے صوبے طبرستان کے علاقے ’’گیلان ‘‘ یا ’’جیلان ‘‘ کے نیف نامی قصبہ میں گیارہ ربیع الثانی ۴۷۰ھ کو سادات کرام کے ایک خاندان میں ہوئی ، جس کی وجہ سے آپ جیلانی یا گیلانی کے لقب سے ملقب ہوئے ۔ آپؒ کا سلسلہٴ نسب والد صاحب کی طرف سے سیدناحضرت حسنؓ تک اور والدہ ٴ محترمہ کی طرف سے سیدنا حضرت حسین ؓتک پہنچتا ہے ۔

آپ کے والد و نانا کا انتقال آ پ کی کم سنی میں ہی ہوگیا تھا، اس لئے آپ کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپ کی والدہ ماجدہ نے اٹھائی ۔والدہ ماجدہ نے آپ کو تقریباً 18 سال کی عمر میں حصول علم کی خاطر بغدادروانہ کیا جو کہ اس زمانے میں مدینۃ العلوم ہونے کے ساتھ ساتھ اس دور کے مشائخ کبار اور عالم اسلام کے علمائے عظام کا مرکز تھا ۔ آپ نے بغداد پہنچنے کے بعد اس وقت کے نامور علماء و مشائخ عظام سے تحصیل علم کی ۔ آپ کے چند مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں (۱) حضرت ابوالوفا علی بن عقیل الحنبلی (۲) حضرت ابو الخطاب محفوظ الکوذانی الحنبلی(۳)حضرت ابو الحسن محمد بن القاضی (۴)حضرت ابو سعید المبارک بن علی المخزومی ۔اس کے علاوہ آپ ؒ نے علم و ادب ابو زکریا بن یحیی ٰ بن علی التبریزی اور علم حدیث بہت سے مشائخ جن میں محمد بن الحسن الباقلانی ، ابو سعید محمد بن عبد الکریم بن خشیشا،ابو طالب عبد القادر بن محمد یوسف شامل ہیں ۔

تکمیل علم کے بعد حضرت ابو سعید المخزومی ؒ نے اپنا مدرسہ آپ کے حوالے کردیا، جہاں آپ نے فصاحت و بلاغت کے ساتھ تقریر اور وعظ و نصیحت شروع فرمادی ۔ مورخین کے نزدیک آپ کے وعظ اور تبلیغ دین میں اکابر مشائخ عراق ، علمائے کرام ، مفتیان عظام کے علاوہ رجال الغیب بکثرت موجود ہوتے تھے، اکثر مورخین نے آپ کے وعظ میں سامعین کی تعداد ستّر ہزار سے زیادہ بتائی ہے ۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒتاریخ دعوت و عزیمت میں شیخ عبد القادرجیلانیؒ کے حالات و فضائل کے تحت تحریر فرماتے ہیں: ’’ سارا بغداد آپ کے وعظ پر ٹوٹ پڑا ، ایک ایک مجلس میں چار چار سو دواتیں شمار کی گئی ہیں جو آپ کے ارشادات قلمبند کرنے کے لئے لائی جاتیں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی، جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں۔ آپ ؒ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ،اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے۔آپ تبلیغ دین،اصلاح معاشرہ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف وخطر تنبیہ فرماتے۔

آپ ؒ فقہی مسائل میں امام احمد بن حنبلؒ کے مقلّد تھے ۔امام شعرانی ؒ آپ کے فقہی مسلک کے متعلق فرماتے ہیں ’’ آپ مذہباً حنبلی تھے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ خود صاحب مذہب اور اہل اجتہادمیں سے ہیں ، آپ اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرتے تھے ، چونکہ آپ بیش تر مسائل اجتہاد میں امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ متفق تھے، اس لئے بعض لوگوں کا قول ہے کہ آپ حنبلی تھے ‘‘ ۔

حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے متعدد گراںقدر کتب منسوب ہیں ، جو آج کل دستیاب ہیں اور ان کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی موجود ہیں ، آپ کی کتابوں کا تذکرہ دوسری کتابوں میں موجود ہے، آپ کی چند کتابیں درج ذیل ہیں : غنیۃ الطالبین ۔ فتح الربانی۔ بشائر الخیرات ۔البواقیت والحکم ۔الفیوضات الربانیہ۔المواہب الرحمانیہ۔فتح الغیب ،یہ فن سلوک و طریقت کے موضوع پر جامع کتاب ہے ۔

حضرت شیخ محدث دہلوی ؒ سلسلہ قادریہ کے جید عالم دین ہیں۔ انہوں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی بارگاہ ولایت میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ دنیائے ولایت کے واقفان اسرار اس بات پر متفق ہیں کہ تمام روحانی سلاسل حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وساطت سے پھیلے، نقشبند یہ سلسلہ حضرت امام جعفر صادقؒ کے واسطے سے آپ کے جد مادری سید نا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے منسلک ہے، ورنہ قادریہ ،چشتیہ، سہر وردیہ، نقشبندیہ ،اولییہ، مولویہ،شاذلیہ، شطاریہ اور بندکیہ، صابریہ قدوسیہ، نظامیہ، امدادیہ، رشیدیہ، اشرفیہ، ذکیّہ وغیرہ اسی منبع ومرجع کے مرہون احسان ہیں۔ حضرت علی ؓکی اولاد میں سے حضرت سیدنا محی الدین عبد القادر جیلانی ؒ احیائے دین کے سلسلے میں وہ بطل جلیل اور رہبر عظیم ہیں، جن کے دست بابرکت نے دین اسلام کو ایک مثالی شکل میں مریض پاکر حیات نوبخشی اور چہار دانگ عالم میں محی الدین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔حضرت محبوب سبحانی ؒ دنیا کے تمام اولیائے کرام کے سردار اور نبوت کے بعد ولایت کے اس مقام اقصیٰ پر فائز ہیں، جہاں او رکسی کو رسائی نصیب نہیں ہوئی۔دعوتِ اسلام ،تبلیغ دین اور اصلاح معاشرہ کے حوالے سے آپ کا کردار اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔  

حیات و خدمات پر ایک نظر

٭…آپ کا نام سید عبدالقادر جیلانی ، کنیت ابو محمد، جب کہ محی الدین،غوثِ اعظم،پیرانِ پیر دستگیر، غوث الثقلین اور محبوب سبحانی وغیرہ القاب سے مشہور ہیں۔

٭…والد کا اسم ِمبارک ابو صالح موسیٰ جنگی دوست، جب کہ والدہ ماجدہ کانام ام الخیر فاطمہ ہے۔

٭…یکم رمضان بروز جمعہ 470ھ کو ایران کے شہر جیلان میں پیدا ہوئے۔

٭…مادر زاد ولی ،نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں۔ والدکی طرف سے سلسلۂ نسب امام حسن رضی اللہ عنہ جب کہ والدہ کی طرف سے امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

٭…سیدنا جنید بغدادی،امام حسن عسکری اور حسن بصری علیہم الرحمہ جیسے جلیل القدر اولیائے کرام نے آپ کی ولادت کی کئی سو سال قبل ہی پیش گوئی فرمائی، جو ہُوبہو درست ثابت ہوئی۔

٭…حلیۂ مبارک کی تفصیل کچھ یوںہے کہ جسم نحیف،قد درمیانہ،رنگت گندمی،آواز بلند، سینہ کشادہ،چہرہ انتہائی خوب صورت،سر بڑا ،بھوئیں ملی ہوئی، جب کہ ریش مبارک لمبی اورگھنی تھی۔

٭…فقہ میں امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے پیرو کار،جب کہ سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں۔

٭…چار نکاح کیے، جن سے کثیر اولاد متولد ہوئی۔چند بیٹوں کے نام یہ ہیں۔شیخ عبدالوہاب،شیخ عبدالرزاق،شیخ عیسیٰ،شیخ ابراہیم،شیخ عبدالعزیز،شیخ عبدالجبار،شیخ یحییٰ،شیخ ابو محمد،شیخ عبداللہ۔

٭…چالیس سال وعظ و نصیحت فرمائی جس سے ایک خلقِ خدا کفر و معصیت سے تائب ہوکر آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئی۔

٭…آپ کی تصانیف میں فتوح الغیب، غنیۃ الطالبین، سرالاسرار،درودِ کبریتِ احمر،رسالہ غوثِ اعظم،فتح ربانی (خطبات کا مجموعہ )مکتوباتِ محبوب ِ سبحانی،جلاء الخواطر اور قصیدہ غوثیہ زیادہ مشہور ہیں۔

٭…91 سال کی عمر میں11 ربیع الثانی 561ھ کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک بغداد میں ہے،جہاں ہر سال عرس کے موقع پر دنیا بھر سے قافلے بڑی تعداد میںشرکت کرتے ہیں۔   

تازہ ترین