• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے پالیسیوں کا اعلان کر رہی ہے۔ تحریک انصاف ہر شعبے کے لئے ایک جامع پالیسی نہ صرف مرتب کر رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے پیش بھی کر رہی ہے۔ اس سیاسی جماعت کا پالیسی سیل جہانگیر ترین کی قیادت میں کام کر رہا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں تحریک انصاف نے تعلیم اور ماحولیات پر دو پالیسیاں پیش کی ہیں۔ اگر ان دو پالیسیوں پر عمل ہو گیا تو یقیناً پاکستان کا مستقبل بہت مختلف نظر آئے گا۔ اس سے قبل ہیلتھ پالیسی پیش کی گئی تھی۔ ان پالیسیوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس قدر مہارت سے تیار کی گئی ہیں اور کس طرح پاکستان کا دنیا کے دوسرے ممالک سے موازنہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جس دن ماحولیات کی پالیسی پیش کی جا رہی تھی تو ایک سائنسدان نے اٹھ کر عمران خان کو نہ صرف مبارکباد دی بلکہ کہا کہ ”میں پچھلے تیس برس سے ماحولیات پر کام کر رہا ہوں، میرے علم کے مطابق تحریک انصاف جنوبی ایشیاء کی پہلی سیاسی جماعت ہے جو ماحولیات پر پالیسی دے رہی ہے، اس پالیسی کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کا پاکستان پر سب سے زیادہ اثر ہو گا، اس دوران ہمیں سبزے اور پانی کی حفاظت کرنا ہو گی۔
پچھلے ہفتے تعلیمی پالیسی پیش کی گئی تھی جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سب کے لئے یکساں تعلیمی نصاب ہو گا۔ خدا کرے ایسا ہو، موجودہ پاکستان میں تو امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ نصاب ہیں، الگ الگ سہولتیں ہیں، جن اسکولوں میں امیروں کے بچّے پڑھتے ہیں وہ حکمرانیاں کرتے ہیں اور جن اسکولوں میں غریبوں کے بچّے پڑھتے ہیں وہ نوکریاں کرتے ہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں۔ ایک ہی ملک میں ایک اسکول مخدوم پیدا کرتا ہے اور دوسرا اسکول خادم۔ خادمین کی تعداد ہمیشہ ہی زیادہ ہوتی ہے ،کثرت کے باوجود محکومی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور اکثریت، اقلیت سے نوکریاں مانگتی پھر رہی ہوتی ہے۔ عمران خان اگر ظلم کا نظام ختم کرنے نکلے ہیں اور تبدیلی کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں تو یقینا قوم ان کی طرف ضرور دیکھے گی۔لوگ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور عمران خان مستقبل کیلئے پالیسیاں پیش کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ کو الیکشن کی فکر ہی نہیں ہے۔ دوسری حیرت بھی تحریک انصاف سے منسلک ہے کہ جس ملک میں ڈرائنگ روموں میں نامزدگیاں کر کے پارٹی الیکشن کرانے کا رواج ہو، عمران خان اسی ملک میں جمہوری انداز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرا رہے ہیں۔ یہ بات بھی شک و شبے سے بالا ہے کہ تحریک انصاف ہی پاکستان کی وہ واحد جماعت ہے جو پارٹی کے اندر مختلف عہدوں کیلئے الیکشن کرا رہی ہے اور یہ الیکشن لوگوں کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ میڈیا کی آنکھ بھی یہ الیکشن دیکھ رہی ہے، اگر کسی مرحلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ کر دیا کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کے ثبوت دیں تو سوائے تحریک انصاف کے باقی جماعتوں کے دامن میں ندامت کے سوا کچھ نہ ہو گا کیونکہ پارٹیوں کے اندر اصلی الیکشن بھی ایک کڑی شرط ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عام انتخابات کا موسم ہو، تمام سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد بنا رہی ہوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں لگی ہوئی ہوں ایسے میں اکلوتی تحریک انصاف الگ تھلگ میلہ سجا کر بیٹھی ہوئی ہے، باقی جماعتیں امیدواروں سے درخواستیں طلب کر رہی ہیں اور تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن میں گھسی ہوئی ہے۔ اس سوالیہ صورتحال پر باقی پارٹیوں کو غور کرنا چاہئے۔
عمران خان اپنے تازہ ترین خطابات میں ایک بار پھر ن لیگ پر برسے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ دہشت گردوں سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہہ ڈالا کہ پنجاب میں پولیس نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ عمران خان ایک عرصے سے طالبان کے حامی ہیں مگر ن لیگ نے انہیں کبھی دہشت گرد نہیں کہا بلکہ مقام حیرت یہ ہے کہ طالبان کو عمران خان کے بجائے اب بھی نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی ضمانت پر یقین ہے،جہاں تک نواز شریف کے دہشت گرد جماعتوں سے اتحاد کا تعلق ہے اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کا مرکز جھنگ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے زیادہ اثرات جھنگ کے آس پاس ہی ہوں گے۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ کو داد دینی چاہئے کہ انہوں نے فیصل آباد ڈویژن جس میں ضلع جھنگ شامل ہے وہاں آفتاب چیمہ کو ڈی آئی جی لگا رکھا ہے، اسی طرح ضلع جھنگ میں عمر اختر لالیکا کو ڈی پی او لگایا ہوا ہے۔ جو لوگ پولیس افسران سے شناسائی رکھتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مذکورہ بالا دونوں افسران فرض میں کوتاہی نہیں برتتے بلکہ ان کے زیر سایہ کام کرنے والے اہلکار بھی معاشرے سے برائی ختم کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ آج میں صرف ایک مثال دوں گا۔ جھنگ کے علاقے تھانہ موچی والا کے موضع کوڑی دی جھوک کے رہائشی ماجھی بلوچ کے بیٹے رمضان المعروف رمضانی ڈاکو نے جھنگ کے عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ 75سے زائد مقدمات میں مطلوب اس رمضانی ڈاکو کا کچھ عرصہ قبل پولیس سے سامنا ہوا مگر اس ڈاکو نے بلوچوں کے سات دیہاتوں کے بچّوں اور عورتوں کو بطور ڈھال استعمال کیا، اسی آڑ میں وہ فرار ہو گیا۔ اب پولیس رمضانی ڈاکو اور اس کے دس ساتھیوں کے تعاقب میں رہی۔ پنجاب حکومت نے ان کے سروں کی قیمت مقرر کر رکھی تھی۔ دہشت گرد تنظیم کے مرکز جھنگ شہر میں فرائض انجام دینے والا ایک پولیس انسپکٹر جہاں کہیں جرم دیکھتا ہے تو پھر مجرم کو سزا دیئے بغیر چین سے نہیں سوتا۔ اس انسپکٹر کا نام غضنفر گجر ہے۔ پچھلے دنوں اسی غضنفر گجر نے رمضانی ڈاکو کو ٹھکانے لگایا۔ اسے صرف اتنی خبر ہوئی تھی کہ تھانہ جھنگ صدر کی حدود میں کچھ لوگ لوٹ مار کر رہے ہیں۔ وہ فوراً نکلا اور ڈاکوؤں کو ڈھیر کر دیا جن میں رمضانی ڈاکو بھی شامل تھا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ شہباز شریف کے اس اقدام کو ضرور سراہیں کہ انہوں نے فرض شناس افسران کو دہشت گردوں کے علاقوں میں تعینات کر رکھا ہے۔ پولیس سروس سے تعلق رکھنے والی شاعرہ نیلما درانی کا شعر ہے
کس کی لغزش کی سزا سارے شہر نے پائی
کس نے لوٹا ہے جہاں بھر کو ہمارے تنہا
تازہ ترین