• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ خوفناک سانحے، ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کی خونیں وارداتیں اور ملک میں پیدا کی جانے والی ہیجانی اور بے یقینی کی کیفیات پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں کی ایک مربوط حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اس حکمت عملی کے مقاصد میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، پاکستانی معیشت کو مزید تباہ کرنا، پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوانا، بلوچستان کی علیحدگی کی راہ مزید ہموار کرنا، شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے جواز پیدا کرنا، توانائی کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنانا، قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور حکومت و قوم اور افواج پاکستان وقوم کے درمیان اعتماد کے بحران کو مزید سنگین بنانا شامل ہیں۔ ہم نے اب سے ڈیڑھ برس قبل انہی کالموں میں لکھا تھا کہ اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ خطے میں گریٹ گیم شروع کرچکا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے اس خطرے کے سدباب کے لئے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کے اسٹیٹ و نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ریاست کے تمام ستون مندرجہ بالا استعماری مقاصد کے حصول میں بھرپور معاونت کرتے رہے کیونکہ بقول امریکی دانشور نوم چومسکی امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔
کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ایک ایسے وقت کرائی گئی ہیں جب گوادر پورٹ کا انتظام چین کی کمپنی کے حوالے کرنے اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے معاہدے پر دستخط کی تیاریاں ہورہی تھیں، پاکستان آئی ایم ایف سے ایک نیا قرضہ لینے کے لئے غیررسمی بات چیت شروع کرچکا تھا، طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کے ضمن میں سوچ بچار ہورہا تھا اور ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے ہی والا تھا۔
پاکستان کی سمندری حدود کے اندرگہرے پانی میں واقع گوادر پورٹ چین کے زمین سے گھرے ہوئے صوبوں، تیل و گیس کی دولت سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں اور زمین سے گھرے ہوئے افغانستان کو تجارتی، توانائی اورکاروباری سرگرمیوں کے بڑے حصے کے لئے راہداری فراہم کرنے اور دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگریہ پورٹ اپنی پوری استعداد کے مطابق کام کرے تواس سے بلوچستان کی معیشت پر زبردست مثبت اثرات پڑیں گے، مقامی لوگوں کوروزگار کے زبردست مواقع ملیں گے اور خطے میں استحکام آئے گا۔ یہ پورٹ پاکستان کو اتنی آمدنی دے سکتی ہے کہ آگے چل کرپاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اس پورٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے اول، جن دوپارٹیوں نے اس پورٹ کے انتظام کے ضمن میں معاہدہ کیا ہے اس کی شرائط اور دائرہ کار میں نظرثانی کی اشد ضرورت ہے اور دوم، مندرجہ ذیل شرائط پورا کرنا ضروری ہیں۔
(1) بلوچستان کی قیادت بشمول ناراض قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔(2)اس پروجیکٹ کے فوائد بلوچستان اور یہاں کے عوام کو لازماً حاصل ہوں۔ (3)بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔ (4)پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی ایجنڈے کے بجائے اپنی حکمت عملی کے تحت جنگ لڑے جس میں مقامی لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کو اولیت دی جائے اور ملک کے کسی بھی حصے میں فوجی آپریشن نہ کیا جائے۔ (5)آئی ایم ایف سے نیا قرضہ کسی بھی حالت میں نہ لیا جائے۔ (6) چین سے ہر سطح پر اور ہر شعبے میں مشاورت اور روابط بڑھائے جائیں اور خارجہ پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔ (7)ملک کے جو علاقے گوادر پورٹ سے مستفید ہو سکتے ہیں ان سب کو اس پورٹ سے شاہراہوں سے منسلک کردیا جائے۔ (8)ایران سے گیس گوادر پر ہی لے لی جائے۔ اس طرح پروجیکٹ کی لاگت اور وقت دونوں میں بچت ہوگی۔
موجودہ حکومت نے اقتدار کی مدت پوری ہونے سے کچھ پہلے گوادر پورٹ اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے معاہدے صرف کریڈٹ لینے کے لئے کئے ہیں لیکن عملی طور پرکسی بڑی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ گیس پائپ لائن کا منصوبہ عملی روپ نہیں دھارے گا جبکہ موجودہ حکومت بھی چین کو الگ رکھ کر بھارت سے وسط ایشیائی ریاستوں تک زمینی راستے سے تجارتی راہداری بنانے کے امریکی منصوبے کے ضمن میں پُرعزم رہی ہے۔ این آر او سے مستفید ہوکر اقتدار میں آنے والی موجودہ حکومت نے دانستہ دروغ گوئیاں کرکے امریکی ایجنڈے کے تحت نومبر 2008ء میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوایا اور چار برس سے زائد عرصے تک معیشت کو جان بوجھ کر تباہ کیا تاکہ 2013ء میں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس عظیم دھوکے کے ضمن میں کسی کا احتساب نہیں کیا جارہا۔ یہی نہیں، ملک میں مالیاتی بدعنوانیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے قوانین، بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات کو انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق111(4) کے تحت ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو سفید کرنے کا راستہ فراہم کرنے، اہم شعبوں کو انکم ٹیکس سے عملاً مستثنیٰ رکھنے، ٹیکسوں کے نظام میں دانستہ ٹیکس سے بچنے کی راہیں فراہم کرنے کے نتیجے میں قومی دولت لوٹنے والوں اور ٹیکس ایمانداری سے نہ دینے والوں کو بدعنوان اور ٹیکس چور ثابت نہیں کیا جاسکے گا۔ غلط طریقوں سے بینکوں کے قرضوں کی معافی اور پارٹنر شپ ایکٹ و انصاف کے تقاضوں سے متصادم اسٹیٹ بینک کے سرکلر29کے ضمن میں تین برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ ہی نہ آنے اور قرضوں کی معافی کے تحقیقاتی کمیشن کی بینکوں کو لوٹنے والوں کے مفادات کا بھرپور تحفظ کرنے والی گزشتہ ہفتے پیش کی جانے والی رپورٹ کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ کمیشن کی یہ غلط اور غیر حقیقت پسندانہ رپورٹ خود اسٹیٹ بینک، وفاقی محتسب اور فیڈرل اینٹی کرپشن کمیٹی کی سابقہ رپورٹوں، ماضی میں متعدد وفاقی وزراء برائے خزانہ اور قانون کے متفقہ موقف، دستاویزی ثبوتوں اور خود ہماری سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ اور سپریم کورٹ میں پیش کی گئی گزارشات جو فیصلے میں شامل کی گئی تھیں اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہمارے 14دسمبر2009ء کو لکھے گئے خط کے مندرجات سے متصادم ہے۔ ان حالات میں ہم یہ بات ذمہ داری سے کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ ایمانداری سے ٹیکس نہ دینے والے، قومی دولت لوٹنے والے، بینکوں کے عادی نادہندگان اور غلط طریقوں سے قرضے معاف کرانے والے اور غلط کاریوں میں ملوث افراد ایک مرتبہ پھر انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پا جائیں گے۔
تازہ ترین