• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین نومبر2007ء والی عدلیہ بحال ہونے کے بعد پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک سنہرا باب رقم ہوا۔ انصاف اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا۔ عدلیہ اور وکلاء تنظیموں کی طرف سے بھی ایسے اقدامات کئے گئے کہ امید کی شمع روشن ہونا شروع ہو گئی اور ہر متعلقہ شخص اور ادارے کو محسوس ہونے لگا کہ اب پاکستان کے عدالتی نظام میں بہتری آئے گی۔ اسی تناظر میں نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی نے عدالتی نظام کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مسائل کی نشاندہی کی درخواست کی، ان کے حل کے بارے میں تجاویز طلب کیں۔ اس طریقے سے جو چیزیں سامنے آئیں، ان پر بڑی سنجیدگی سے اور بڑے مفصل انداز میں غور و فکر کیا گیا اور اس ساری مشق کے بعد نیشل جوڈیشل پالیسی 2009ء وضع کی گئی۔ اگر اس پالیسی کا مطالعہ کیا جائے تو جمائیاں نہیں آتیں جو عام طور پر اس طرح کی دیگر پالیسیاں پڑھتے وقت رکنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس پالیسی کے ایک ایک لفظ کے پیچھے خلوصِ نیت اور عدالتی نظام میں واقعتاً بہتری لانے کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے اور اگر کہیں آپ کو قانون اور عدالتی نظام کی بھی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ہے تو پھر یہ پالیسی پڑھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس پالیسی کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک قابلِ عمل پالیسی ہے اور عدالتی نظام سے متعلقہ تمام ادارے اگر تھوڑا سے بھی تعاون کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو ایک عام آدمی تک انصاف کی فراہمی کی کوشش کافی حد تک بار آور ہو سکتی ہے۔ ویسے تو مجھے مروجہ نظام انصاف کے وجود سے ہی بنیادی اختلاف ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں انگریزوں کا نظامِ انصاف جسے اینگلو سیکسن نظام ِ انصاف کہا جاتا ہے، ہونا ہی نہیں چاہئے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ نظام کوئی اچھا یا موثر نظام نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام ہمارے قومی مزاج ،ہماری تاریخ ، ہمارے اخلاقی مسائل ، ہمارے ہاں جرائم اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات وغیرہ وغیرہ سے میل نہیں کھاتا۔اس نظام ِ انصاف کی حالت بھی انگریزوں کی تہذیب کی سی ہے جو بقول انور مسعود ہم پہننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ہمیں پوری نہیں آتی۔خیر اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہو گی، فی الوقت مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ کیونکہ یہ نظام اس وقت ہمارے ملک میں رائج ہے اس کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوششوں کو سراہنا چاہئے اور ان ہاتھوں کو مضبوط کرنا چاہئے جو اس نظام کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔
نیشنل جوڈیشل پالیسی موجودہ نظام ِ انصاف کے امراض کی درست تشخیص اور ان امراض کا درست طریقے سے علاج تجویز کرنے کے حوالے سے قابلِ تعریف ہے لیکن اس پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے کافی سوالیہ نشانات موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خوبصورت پالیسی پر ٹھیک طریقے سے عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ آئیے ان عوامل پر غور کرتے ہیں جو نیشنل جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تین نومبر کی عدلیہ کی بحالی کے بعد والا جذبہ آہستہ آہستہ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ جب اصل عدلیہ بحال ہوئی تو بار اور بنچ میں ایک جذبہ تھا، ایک جنون تھا، ایک اعتماد تھا۔ پاکستان کے نظامِ انصاف کو ٹھیک کرنے کا ،عام آدمی کیلئے انصاف کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کا،انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کا۔ لیکن اب بار اور بنچ دونوں تھکے تھکے سے محسوس ہو رہے ہیں، پہلے والا جوش اب نظر نہیں آ رہا، نتیجتاً جو تھوڑی بہت بہتری اس پالیسی کی وجہ سے آئی تھی وہ بھی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔کارل مارکس نے انقلاب اور ردِ انقلاب جیسے مظاہر پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نظامِ عدل میں جو انقلاب آیا تھا وہ اب تیزی سے ردِ انقلاب کی زد میں آرہا ہے۔ ہر جدوجہد میں ایک طرف اچھائی کی قوتیں کار فرما ہوتی ہیں اور دوسری طرف برائی کی، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ نظامِ عدل میں اصلاحات کی کوششوں کی جدوجہد میں اب برائی کی قوتیں غالب آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب ہماری عدالتوں خصوصاً ماتحت عدالتوں میں کرپٹ وکلاء، کرپٹ اہلکاروں، کرپٹ ججوں اور کرپٹ پولیس اہلکاروں کے مافیاز اور گینگ پھر زور پکڑ رہے ہیں۔ وکلاء تنظیمیں جن کی عظیم قربانی اور جدوجہد نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور جنہوں نے اس پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرنا تھا،اب جگہ جگہ وکلاء گردی کے مرتکب افراد کی پردہ پوشی کرتی نظر آ رہی ہیں اور عدلیہ نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، کیا قانون وکلاء کیلئے بھی برابر ہے؟ وکلاء تنظیموں میں اب ایسے عناصر غالب آ چکے ہیں جو تحریک والی سوچ کے حامل نہیں ہیں۔ ججز کے حوالے سے بھی کرپشن کی شکایات میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن میں ملوث ججوں کا خوف بتدریج کم ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ رہے پولیس اہلکار، جیل اہلکار اور عدالتی اہلکار، ان تک تو نیشنل جوڈیشل پالیسی اور آزاد عدلیہ کا خوف کبھی پہنچا ہی نہیں تھا، سو ان کا ذکر کیا کرنا۔ اسی طرح پچھلے چند سالوں سے حکومت کی طرف سے عدلیہ کے بارے میں مسلسل معاندانہ رویّے اور نظام ِعدل کی بہتری کیلئے عدم تعاون کی فضا نے بھی اس پالیسی پر عملدرآمد کی راہیں مسدود کئے رکھیں۔ قصہ مختصر،آج نظامِ عدل میں بہتری کی کوششیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانے والے اداروں اور دفاتر کو باخبر رکھنا بہت ضروری ہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی پر عمل نہیں ہو رہا۔ ماسوائے استثنائی صورتوں کے نہ ہی اس پالیسی میں دی گئی ڈیڈ لائنز پر عمل ہو رہا ہے اور نہ ہی کرپٹ اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ نہ ہی نائب کورٹ (جو فوجداری معاملات میں کرپشن کی زنجیرکی ایک اہم کڑی بن جاتے ہیں)تین مہینوں کے بعد تبدیل ہورہے ہیں اور نہ ہی جج صاحبان کی کارکردگی جانچنے کا کوئی موثر نظام کام کر رہا ہے۔ نہ ہی پولیس وقت پر چالان جمع کراتی ہے اور نہ ہی اس پر ان کے خلاف ججز کوئی کارروائی کرتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات کی روک تھام کیلئے اس پالیسی میں دےئے گئے اقدامات پر بھی کوئی عمل نہیں ہو رہا۔ پولیس کی طرف سے تشددکی شکایات عام ہیں، پولیس تفتیش کرنے کے بجائے تفتیش خراب کرنے پر زیادہ کام کرتی ہے، پولیس کی طرف سے اختیارات کا غلط استعمال بھی معمول کی بات ہے لیکن نیشنل جوڈیشل پالیسی کی رو سے جج حضرات ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے سے کتراتے ہیں اور اگر بادل نخواستہ وہ ایسا کربھی دیں تو متعلقہ اتھارٹیز ان پر کوئی عملدرآمد نہیں کرتیں۔ یہاں صرف چند ایک باتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے ورنہ یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ اس ساری صورتحال کا نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے بالخصوص مظلوم کو، طاقتور لوگ تو مندرجہ بالا تمام خرابیوں سے فائد ہ اٹھاتے ہیں۔جب تک نیشنل جوڈیشل پالیسی پر موثر طریقے سے عملدرآمد نہیں ہو گا، عام آدمی کا اس نظام پر اعتماد بحال نہیں ہو پائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک اعلیٰ سطح کی جائزہ کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس بات پر غور کر ے کہ 2009ء سے لیکر اب تک اس پالیسی پر کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے۔ یہ کمیٹی ساری صورتحال کا مکمل جائزہ لیکر اس پالیسی کے عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بننے والے افراد اور اداروں کا تعین کرے اور ان کے خلاف مناسب کارروائی کرے۔
تازہ ترین