• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد سعید جاوید

جہانگیر پارک سے باہر نکلتے تومرکزی دروازے کے سامنے ایک اور ہی جہاں آباد تھا ۔ وہاں بڑے مزے دار اور دلکش نظارے ہوتے تھے ۔ پارک کی چار دیواری کے باہر جنگلے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے پتھارے لگے ہوئے تھے، جہاں تیل سے لے کر کان کی میل اور دانت نکالنے والے میسر ہوتے تھے ۔ کوئی مہنگا سودا بھی نہیں ہوتا تھا۔ بس پتھارے دار کا تھوڑا چالاک اور چرب زبان ہونا ضروری تھا اور یہ خاصیت ان کے پاس ضرورت سے زیادہ ہی موجود تھی ۔ کچھ تو لوگ بھی سیدھے سادے تھے اور اکثروہ خود ہی ان کے شیطانی چکر میں پھنس جاتے تھے۔

پرانے جہانگیر پارک کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک الگ ہی جہاں آباد تھا ، جنگلے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے پتھارے لگے ہوئے تھے

زمین پر چٹائیاں بچھا کر بیٹھے ہوئے یہ لوگ کھوئی ہوئی صحت لوٹانے کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے ۔ ان کے پاس درجنوں کے حساب سے شیشے کے مرتبان سجے ہوتے تھے، جن میں کچھ دیسی جڑی بوٹیاں، تیل اور محلول وغیرہ ہوتا تھا، اس کے علاوہ کچھ بڑے چھپکلی نما جیتے جاگتے جانور سامنے فرش پر الٹے لٹائے ہوتے تھے جو ہوا میں ٹانگیں چلاتے رہتے تھے۔ اس قسم کے طبیب ایک قطار میں جہانگیر پارک کے جنگلے کی دیوار کے ساتھ فرش پر چادریں بچھائے بیٹھے ہوتے تھے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن ان ہی میں ایک ادھیڑ عمر مکرانی خاتون نے بھی اسی قسم کی بیماریوں کے علاج کی دکان سجائی ہوئی تھی اور وہ بھی ہو بہو یہی کچھ کیا کرتی تھی۔

وہ ’’ حاجت مندوں ‘‘سے وہی سلوک کرتی جو اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے پڑوسی کرتے تھے اور کچھ پیسوں کے عوض خالی شیشی میں وہ تیل ڈال کر دیا کرتی تھی ۔ اسی دیوار کے ساتھ ہی ایک دندان ساز بھی بیٹھا ہوتا تھا ، جو نہ صرف دانت کا کیڑا نکالتا بلکہ ایک روپے کی ادائیگی پرتکلیف دہ داڑھ بھی نکال پھینکتا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے پوری طاقت کے ساتھ مریض کا سر پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے سیدھا ہی اس کی دکھتی ہوئی داڑھ پر جمبور رکھ کر اسے دبوچ لیتا اور پھر پورا زور لگا کر داڑھ کو دائیں بائیں گھما کر باہر کھینچ لیتا۔ 

یہ دندان ساز موقع پاتے ہی منجن بھی بیچتا تھا جو بقول اس کے ہمالیہ کے برفانی پہاڑوں پر پائی جانے والی کچھ خاص جڑی بوٹیوں سے تیار کیا جاتا تھا ،اور یہ خاندانی نسخہ اس کے کسی بزرگ کو ایک بابے کی معرفت ملا تھا جو یہ نسخہ اسے بتا کر پہاڑوں میں جا چھپا تھا ۔ یہ پائوڈر نما منجن پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں دو آنے کا مل جاتا تھا ۔دانتوں کا کیڑا نکالنا بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، کیونکہ ا س کام کے لیے وہ بایاں ہاتھ ہی استعمال کرتا تھا ۔ 

وہ کسی بھی پیلے پیلے سال خوردہ سے دانتوں والے شکار کو پھانسنے کے لیے اسے پاس بلا کر کہتا کہ ذرا اپنے دانت دکھاؤ ۔ وہ ایسا ہی کرتا اور اپنا بھاڑ سا منہ کھول کر اس کے آگے کر دیتا ۔ وہ اس کے دانتوں اور مسوڑھوں پر اپنا گندا سا ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنا محفوظ فیصلہ سنا دیتا کہ اس کی ایک یا دو داڑھوں میں کیڑا لگا ہوا ہے، جس کو فوری طور پر در بدر کرنا ضروری ہے ورنہ یہ ساری داڑھ کو کھا جائے گا ۔

وہ اسے یہ پیشکش بھی کر دیتا کہ اگر وہ آٹھ آنے کا انتظام کر لے تو وہ نہ صرف یہ کہ اس کا کیڑا نکا لے گا بلکہ اس کی تسلی اور تشفی کے لیے یہ عمل سب حاضرین محفل کو بھی دکھائے گا ۔ چنانچہ مطلوبہ نقدی وصول کر کے وہ ایسا ہی کرتا تھا ۔ 

وہ مریض کے منہ میں ایک گھونٹ ہلکا سا سرخ پانی ڈال کر ایک بار پھر اپنی انگلی سے اس کے دانتوں اور مسوڑھوں کی مالش کرتا، پھر اس کے منہ کے سامنے مومی کاغذ کا ایک ٹکڑا رکھ دیتا اور کہتا کہ منہ میں جو کچھ بھی ہے وہ اسے یہاں اُگل دے ۔ اس کاغذ میں اُگلے ہوئے رنگین تھوک میں سے وہ تنکے کی مدد سے سفید رنگ کا ایک چھوٹا سا کیڑا برآمد کرتا اور سب سے پہلے مریض کو اور پھر آس پاس کھڑے ہوئے متجسس لوگوں کو اس کا دیدار کرواتا۔

یہ ایک ننھا سا دیمک کی طرح کا کیڑا ہوتا جو حرکت بھی کرتا تھا ۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کیڑا دیکھا تھا ۔ میں خود گھر جا کر اپنے طور پر بھی اپنے دانتوں میں یہ کیڑا تلاش کرتا رہا کیونکہ میری بھی ایک داڑھ سیاہ ہو گئی تھی اور اس کے کہنے کے مطابق اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کیڑا ابھی اس کے اندر ہی کہیں چھپا بیٹھا ہوا تھا جس کو صرف اس کی دوا ہی نکال سکتی ہے ۔ 

یہ تو بہت بعد میں جا کر علم ہواکہ دنیا میں ایسا کوئی کیڑا ہوتا ہی نہیں بلکہ دانتوں کی سڑن سے یہ نقصان ہوتا تھا ۔ فال نکالنے والے اس وقت بھی بالکل اسی طرح فال نکالتے تھے، جس طرح آج کرتے ہیں ۔ پنجرے میں دو طوطے ہوتے تھے۔ ایک تو اندر کسی پوستی کی طرح اونگھتا رہتا ،جبکہ دوسرا ہر وقت ڈیوٹی پر موجود رہتا اور ایک سیکنڈ کے نوٹس پر چھلانگ مار کر چھوٹی سی چھڑی پر چڑھ کر بیٹھ جاتا ۔

اس کو ترتیب سے بچھائے ہوئے کچھ لفافوں کے قریب چھوڑ دیا جاتا۔ وہ ان لفافوں کے ارد گرد تھوڑی سی چہل قدمی کر کے کوئی سا ایک لفافہ چونچ سے اٹھا کر مالک کو تھما دیتا جو فوراً ہی اس میں سے کارڈ نکال کر فال نکلوانے والے کو فر فر پڑھ کر سنا دیتا۔ اس میں درج ایک دو پریشانیوں، گھریلو جھگڑوں، کچھ روزگار کے مسائل اور جادو ٹونے کا بتا کر آخر میں اسے پریشان نہ ہونے کی تلقین کرتا اور جلد ہی اس کی سب مشکلیں ختم ہونے کی خوش خبری دیتا ۔ اس کے علاوہ اس کے مستقبل قریب میں ہی لکھ پتی بن جانے کی اطلاع بھی ہوتی تھی۔ 

وہیں کہیں ایک نجومی بھی اڈہ لگائے بیٹھا ہوتا تھا ،جس نے پیچھے بورڈ پر اپنے آپ کو پروفیسر ظاہر کیا ہوا تھا اور دوتین عجیب و غریب ڈگریاں بھی لکھوا رکھی تھیں جو شاید وہ خود بھی نہ پڑھ سکتا ہو ۔اس کے ہاتھ میں ایک محدب عدسہ ہو تا تھا ۔ اس نجومی کو اپنے سوا ہر ایک کی قسمت کاحال معلوم ہوتا تھا۔ وہ عدسے کی مدد سے سائل کے ہاتھوں کی ساری لکیروں کا بغور جائزہ لے کرایک ایسی لکیر کو دریافت کرتا جو سامنے بیٹھے ہوئے معصوم، مگر اچھی خبر سننے کے منتظر شخص کو پریشان کیے ہوئے ہوتی تھی ۔ 

وہ اس کو نجوم کا سبق پڑھاتا اورمختصراً دل اور دماغ کی لکیروں کے علاوہ نوکری اور شادی کی لکیریں بھی دکھاتا تھا۔ غیر شادی شدہ شخص کو بھی وہ دو تین شادیاں بتا دیتا تھا ، اور پھر بار بار اسے یاد دلاتا کہ یہ وہ نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے ہاتھ کی لکیریں بولتی ہیں ۔

(’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘ سے اقتباس)

تازہ ترین