• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’80ء کی دہائی اور یادیں‘ اس وقت کراچی کے تقریباََ ہر گھر میں ٹی وی آچکا تھا

عبیداللّٰہ کیہر

80ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات اپنے عروج پر تھیں۔ پی ٹی وی نے اس عشرے میں اپنی تاریخ کے سب سے معروف اور مقبول ڈرامے اور پروگرام پیش کیے۔ہمیں سب سے زیادہ کراچی اسٹوڈیوز کے ڈرامے پسند ہوا کرتے تھے اور اس کے بعد لاہور اسٹوڈیوز کے۔ اس زمانے میں ٹی وی کے تقریباً سارے اداکاروں کو لوگ اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے اوران کا بالکل اسی محبت کے ساتھ ذکر کرتے کہ جو اپنے کسی رشتہ دار کے بارے میں بات کرتے ہوئے لہجے میں جھلکتی ہے۔ 

فاطمہ ثریا بجیا کے ڈرامے ”افشاں“ اور ”اَنا“، منو بھائی کا ”سونا چاندی“، حسینہ معین کے ڈرامے ”اَن کہی“،”تنہائیاں“ اور ”دھوپ کنارے“، امجد اسلام امجد کے ڈرامے”وارث“، ”سمندر“ اور ”وقت“، نسیم حجازی کا ”شاہین“، سلیم احمد کا ”تعبیر“، عبدالقادر جونیجو کا ”دیواریں“، نورالہدیٰ شاہین کے ڈرامے ”جنگل“اور ”آسمان تک دیوار“، انور مقصود کا ”آنگن ٹیڑھا“، یونس جاوید کا ”اندھیرا اُجالا“، اطہر شاہ خان کا ”با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار“، شوکت صدیقی کا ”جانگلوس“ ……اور ان جیسے کئی شاہکار سلسلے اس زمانے میں پیش کئے گئے۔یہ ڈرامے رات 8 بجے سے 9 بجے تک دکھائے جاتے تھے۔ 

ان ڈراموں کے درمیان اشتہاری وقفے بھی برائے نام ہوتے تھے، بلکہ کبھی کبھی تو قسط اتنی طویل بھی ہوتی کہ اس کو 9 بجے کے خبرنامے پر روک کر ڈرامے کا بقیہ حصہ خبروں کے بعد دکھایا جاتا تھا۔ڈرامہ دیکھنے والے اس دن بقیہ حصے کے انتظار میں صبر سے بیٹھ کر پورا خبرنامہ بھی دیکھ ڈالتے تھے اور پھر ڈرامے کی قسط کے چند بچے ہوئے منٹ دیکھ کر ہی اٹھتے تھے۔

اس وقت تک کراچی کے تقریباً ہر گھر میں ٹی وی آ چکا تھا۔ ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ہر شخص گھر پہنچ جاتا اور ڈرامہ نشر ہونے کے دوران شہر بھر میں ہو کا عالم طاری ہو جاتا، گلیاں اور محلے سنسان ہو جاتے اور ہر گھر میں سے صرف ٹی وی سے ابھرتے ڈرامے کے ڈائیلاگ سنائی دیتے تھے۔

پھر ان ہی دنوں مشہور پاپ سنگر بہن بھائی نازیہ حسن اور زُہیب حسن کی شہرت نے آسمان کو چھوا۔نوجوان نسل تو ان کے گانوں کی دیوانی ہی ہو گئی۔ ان کے گائے ہوئے نغموں نے نوجوانوں میں دھوم مچا دی۔مجھے یاد ہے کہ ایک دن رات کے وقت میں سائیکل پر گھر جا رہا تھا توایک گلی میں سے گزرتے ہوئے اچانک ایک گھر کے ٹی وی سے زُہیب حسن کے گانے ”ذرا چہرہ تو دکھاؤ“ کے بول بلند ہوئے۔

میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میں تیزی سے سائیکل کے پیڈل مارتا ہوا گھر کی طرف دوڑا تاکہ ٹی وی کے سامنے پہنچ کر زُہیب کو یہ گانا گاتا ہوا دیکھ سکوں۔ میرے گھر پہنچنے پہنچنے تک وہ گانا تو ختم ہو گیا،لیکن راستے میں ہر گھر سے اٹھنے والی ٹی وی کی بلند آوازکے باعث میں اس گانے کا ایک ایک مصرعہ اچھی طرح سن چکا تھا۔

ٹی وی ڈراموں کے علاوہ ایک اور موقعے پر بھی کراچی کی گلیاں سنسان ہو جایا کرتی تھیں، اُن دنوں جب میٹرک یا انٹر کے بورڈ کے امتحان چل رہے ہوتے تھے۔ ہر طالب علم کو سانپ سونگھا ہوا ہوتا تھا اور چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی تھیں۔ سارے ہنسی مذاق اور ہلے گلے موقوف کر کے ہر کوئی اپنے گھر میں گھسا رَٹّے پہ رٹّا لگا رہا ہوتا تھا اور شہر کی گلیاں سائیں سائیں کرتی امتحان ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔

80ء کی دہائی کے شروع میں ہمارے محلے کے گھروں کو سوئی گیس کے کنکشن مل گئے تھے،اس سے پہلے ہر گھر میں مٹی کے تیل سے چلنے والے اسٹوو استعمال ہوتے تھے۔ جست کے بنے ہوئے یہ چولہے بڑے پائیدار اور دیرپا ہوتے تھے، بس ان کی بتیاں گاہے بہ گاہے بدلنا پڑتی تھیں۔ سوتی دھاگوں کی بتیوں سے بنا ہوا یہ ایک گول گچھا ہوتا تھا، جسے ایک خاص ترکیب سے چولہے میں فٹ کیا جاتا تھا۔ 

یہ ڈیوٹی عام طور پر میرے حوالے کی جاتی تھی۔ یہ ایک کام بڑی مہارت کا متقاضی ہوتا تھا اور ہم اس کے ماہر تھے۔ گیس آنے کے بعد مٹی کے تیل سے چلنے والے ہر طرح کے چولہے یک لخت متروک ہو گئے اور ماضی کا حصہ بن گئے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے گیس سے چلنے والا پہلا چولہا خریدا تو وہ مبلغ 130 روپے کا ملا تھا اور باورچی خانے میں گیس کی فٹنگ کا پلمبر نے 300 روپے معاوضہ لیا تھا۔

اسکول کے دنوں میں جب بھی کوئی مجھ سے پوچھتا کہ تم بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہو؟…… تو میں یہی جواب دیتا تھا کہ ”ڈاکٹر“۔ لیکن میٹرک کرنے کے بعد ڈی جے کالج میں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیتے ہوئے انتخاب میں نے ”پری انجنیئرنگ“ Pre-Engineering کا کیا۔ انجنیئرنگ کے اس انتخاب کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی۔ہماری قوم کیہر زیادہ تر سندھ کے پانچ شہروں، جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ، خیرپوراور ٹھٹھہ میں آباد ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر غلام رسول شیر خان کیہر ہوا کرتے تھے،جو ” جی ایس کیہر“ کے نام سے مشہور ہوئے۔ 

جی ایس کیہر صاحب کو میں نے اُن کی بزرگی میں دیکھا اور ہمارے لڑکپن میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ جی ایس کیہر صاحب کے بیٹے امداد حسین کیہر اور ہمارے ابا میں بڑی دوستی ہوا کرتی تھی۔ امداد کیہر صاحب کا بنگلہ جیل چورنگی اور مزار قائد کے درمیان ایم اے جناح روڈ پر مسلم آباد میں ہوا کرتا تھا۔ جس اسٹریٹ پر ان کا بنگلہ تھا وہ آج بھی ”جی ایس کیہر اسٹریٹ“ کہلاتی ہے۔ 

ہم اکثر امداد کیہر صاحب کے گھران سے ملنے جاتے تھے۔ وہاں جانے کےلئے ہم عام طور پر گرومندر کے بس اسٹاپ پر اترتے اور پھر پیدل چلتے ہوئے، مزارِ قائد پر محبت بھری نظریں ڈالتے ہوئے اسلامیہ کالج کے سامنے دنیا کے نقشے والے گلوب کا نظارہ کرتے ہوئے پیدل کیہر صاحب کے گھر تک پہنچتے تھے۔ اس وقت دنیا کے گلوب کے نیچے والا حوض شفاف مچلتے پانی سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور اسے دیکھ کر ہمارا دل باغ باغ ہو جایا کرتا تھا۔ اسلامیہ کالج کے سامنے ہم سڑک پار کرتے اور داؤد انجنیئرنگ کالج کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مسلم آباد کی طرف جاتے تھے۔ 

داؤد کالج کی چار دیواری پر اس زمانے میں کسی ماہر مصور نے انجنیئرنگ کے رنگا رنگ شاہکارپینٹ کر رکھے تھے۔ کاریں، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، راکٹ، عمارتیں، کارخانے، ڈیم، سڑکیں اور نہ جانے کیا کیا۔ میں جب بھی اس دیوار کے پاس سے گزرتا تو ان تصاویر میں کھو جاتا۔ میں نے ایک دفعہ کسی سے پوچھ ہی لیا کہ یہ سب تصویریں یہاں کیوں بنائی گئی ہیں؟ …… تو معلوم ہوا کہ یہ ایک کالج ہے جہاں انجنیئر بنتے ہیں۔ میں بہت مرعوب ہوا اور اسی دن میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ میں ڈاکٹر نہیں، انجنیئر بنوں گا۔

داؤد کالج کی اس دیوار پر بنے مصوری کے شاہکاروں سے، جہاں مجھ میں انجنیئر بننے کا جذبہ بیدار ہوا، وہیں مصوری کا بھی شوق پیدا ہوا۔میٹرک کے امتحانات میں میرے سب سے زیادہ نمبر بھی ریاضی اور فزکس ہی میں آئے تھے، چنانچہ میرا یہ ارادہ اور مضبوط ہوا اور انٹر میڈیٹ میں، میں نے انجنیئرنگ ہی کا انتخاب کیا۔

یہ وہ دور تھا کہ جب ہم کمپیوٹر کو ایک نئی چیز جان کر متعارف ہو رہے تھے۔بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اس دور میں کمپیوٹر سیکھنا ضرورت سے زیادہ فیشن کا درجہ رکھتا تھا اور اس سے واقف ہونا علم سے زیادہ فخر کا ذریعہ تھا۔ ہم شروع شروع میں جن کمپیوٹرز سے واقف ہوئے ان میں کموڈور Commodore، اٹاری Atariاور سنکلیئر Sinclair وغیرہ تھے۔ابھی ہم صرف کوبول COBOL اور بیسک BASIC کی اصطلاحیں اِتر اِترا کر بولتے تھے۔

اس زمانے میں فون بہت کم لوگوں کے گھر میں ہوتا تھا اورموبائل فون تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ہم ٹی وی پر چلنے والی فلموں، سکس ملین ڈالر مین Six Million Dollar Man، دی سینٹ The Saint اور چپس Chips وغیرہ کے کرداروں کو چلتی کار میں فون استعمال کرتا دیکھ کر بہت حیران ہوتے تھے اور یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایسا حقیقت میں بھی ممکن ہے۔

فون اور موبائل فون نہ ہونے کی وجہ سے بڑے عجیب عجیب واقعات پیش آتے اور وقت بہت ضائع ہوتا۔۔ کبھی کبھی تو یہ تماشا بھی ہوتا کہ ہم کئی دن کی تیاری کے بعد بڑی چاہت سے بسوں یا ٹیکسیوں میں لد کر کسی عزیز رشتے دار کے گھر پہنچتے تو پتہ چلتا کو وہ سب تو آج خود ہمارے گھر کی طرف گئے ہوئے ہیں، مگر بات اصل میں یہ تھی کہ فرصت بہت ہوتی تھی۔ اتنا وقت ضائع ہونے پر بھی کوئی بے مزا نہیں ہوتا تھا اور زندگی ایک دلکش کاہلی کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی تھی۔

دور شہروں میں بسنے والے ایک دوسرے کو خیریت کی اطلاع خط ہی کے ذریعے دیا کرتے تھے۔ ڈاکیے کا دروازے پر آنا سب کےلئے پر مسرت ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہی ڈاکیہ، جس دن دروازے پر آکر یہ کہتا کہ آپ کا ”تار“ آیا ہے، اس دن گھروں میں اس تار کو وصول کرنے سے پہلے ہی کہرام مچ جاتا تھا، کیونکہ تار (یعنی ٹیلی گرام) عام طور سے کسی نہ کسی عزیز کے مرنے کی یا شدید بیمار ہونے کی اطلاع ہی لایا کرتا تھا۔ 

فوراً بلانے کےلئے بھی تار ہی بھیجا جاتا تھا، مجھے یاد ہے کہ ہماری دادی اماں شدید بیمار ہوئیں تو ابا کے پاس چچا کا ٹیلی گرام آیا۔ امی اور ابا اگلے ہی دن گاؤں چلے گئے اور پھر ہم کئی دن ان کا انتظار کرتے رہے۔ بالآخر وہ واپس آئے تو ان کے چہرے مضمحل اور بے مسرت تھے۔ ہم نے اماں سے پوچھا کہ دادی اماں کی طبیعت کیسی تھی، تو وہ سر جھکا کر رونا شروع ہوگئیں اور پھر گلوگیر لہجے میں بتایا کہ، بچو تمہاری دادی اماں کا تو کئی دن پہلے انتقال ہو چکا ہے۔

مجھے گھر سے کالج تک پہنچنےکے لئے دو دو بسیں بدلنا ہوتی تھیں اور اس عمل سے میں خاصا بیزار ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ماڈل کالونی اسٹیشن سے سٹی اسٹیشن تک لوکل ٹرین بھی چلتی تھی۔ کچھ عرصہ میں اس ٹرین پر بھی کالج گیا لیکن یہ بھی دشوار ہی تھا۔ صبح سویرے کسی بس کے ذریعے اپنے گھر سے ماڈل کالونی ریلوے اسٹیشن تک وقت پر پہنچنا تو دشوار تھا ہی، سٹی اسٹیشن پر اتر کر ایک طویل فاصلہ پیدل طے کر کے اپنے کالج تک پہنچنا بھی خاصا دقت طلب ہی تھا۔ 

ہمارے اسٹاپ سے کراچی یونیورسٹی کے پوائنٹ بھی چلتے تھے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بسوں کو کراچی والے ”پوائنٹ“ کہتے ہیں۔ہم کبھی کبھی یونیورسٹی کے پوائنٹ پر بھی سوار ہو جاتے اور شارع فیصل تک آ جاتے اور وہاں سے کوئی دوسری بس پکڑ کر صدر پہنچتے۔کچھ ہی دن میں مجھے یہ پتہ چلا کہ ہمارے اسٹاپ سے ڈاؤ میڈیکل کالج کا پوائنٹ بھی جاتا ہے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج ہمارے ڈی جے کالج کے قریب ہی تھا۔ 

میں ایک دن چپکے سے ڈی ایم سی کے پوائنٹ میں چڑھ گیا اور پورا سفر طے کر کے ڈاؤ کی حدود میں اترگیا۔ وہاں سے پیدل چل کر میں بہت جلد اپنے کالج تک پہنچ گیا۔ یہ تو بڑا مزے کا کام ہو گیا یعنی بغیر کوئی کرایہ دیئے اور بہت کم وقت میں ایک ہی بس سے میں کالج پہنچ گیا۔

ڈی جے کی اس کلاس میں مستقبل کا افسانہ نگار حارث خلیق بھی میراکلاس فیلو تھا۔ حارث اور میں، دونوں اپنی اردو دانی کے باعث جانے جاتے تھے۔ ہمارے اردو کے استاد غیور صاحب نے مجھے ”بابائے اردو“ کا لقب دے رکھا تھا جبکہ حارث کو وہ ”تایائے اردو“ کہتے تھے۔ حارث خلیق ڈی جے کالج کے بعد این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی میرا کلاس فیلو رہا۔ ہم دونوں کے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، لیکن ہمارا باہمی احترام ہمیشہ برقرار رہا ہے۔ حارث تو اپنی خدمات پر حکومت پاکستان سے صدارتی ایوارڈ بھی لے چکا ہے۔

محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا خیال ذہن میں آیا تو میں نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہی ٹیوشن سینٹر کھول لیا۔ مجھے تو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ محلے کے لوگ اس قدر شدت سے میرے اس اقدام کا انتظار کر رہے تھے۔ سینٹر کھولنے کا اعلان کرتے ہی پہلے ہی مہینے سات بچے میرے پاس ٹیوشن پڑھنے آ گئے۔ میں نے فی بچہ 15 روپے فیس مقرر کی جسے سارے والدین نے خوش دلی سے قبول کیا اورپھر پہلے مہینے کے اختتام پر میری جیب میں 105 روپے کی رقم آ گئی۔ اس زمانے میں ایک طالب علم کے اخراجات کے حوالے سے یہ ایک مناسب رقم تھی۔ 

میں خوش حال ہو گیا اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بجائے تیز رفتار اور سیٹ بائی سیٹ پرائیویٹ ویگن میں سفر کرنے لگا۔کچھ ہی عرصے بعد کراچی میں مزدا منی بسیں چلنا شروع ہو گئیں۔ شہر بھر میں ان کو کئی روٹ الاٹ ہوئے۔ ان بسوں کے اکثر ڈرائیوراور کنڈکٹر بالعموم بدتمیزاور اُجڈ ہوا کرتے تھے۔ مسافروں سے تلخ کلامی، جھگڑا اور ہاتھا پائی ان کا روز کا معمول ہوا کرتا تھا، ان کے اس نا مناسب رویے نے کراچی کے بد اَمن مستقبل کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔

تازہ ترین