• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی ساری جمہوریتیں خواہ صدارتی ہوں یا پارلیمانی وہاں انتخابات کے حوالے سے بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ انگلستان اور بھارت میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے جبکہ امریکہ صدارتی جمہوری نظام کا حامل ملک ہے۔ ان تینوں ممالک سمیت دنیا کے ہر جمہوری ملک میں اسمبلیاں تو اپنی مدت پوری کر کے ختم ہو جاتی ہیں لیکن حکومتیں برقرار رہتی ہیں۔ یہ حکومتیں نہ صرف الیکشن کے دوران بلکہ نئی حکومت کے حلف اٹھانے تک اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں لیکن کبھی برسراقتدار جماعت کے حوالے سے عوام اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی قسم کے شک و شبہے کا اظہار نہیں کیا جاتا، اس لئے کہ وہاں ایک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن موجود ہے۔ انتخابی قوانین سخت اور انتخابی نظام اس قدر پختہ ہے کہ حکومتیں خواہش کے باوجود بھی انتخابات کے نتائج پر کسی طور اثر انداز نہیں ہو سکتیں لیکن پاکستان میں معاملہ برعکس ہے شاید اس کی وجہ جمہوری نظام کا عدم استحکام ہے یا جمہوریت کی مختصر تاریخ کہ یہاں ہر چناؤ کے بعد ہارنے والا فریق ہمیشہ یہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ انتخابات منصفانہ، آزادانہ اور شفاف نہیں تھے۔ غور کیا جائے تو یہ شکایات اتنی بے جا بھی نہیں اس لئے کہ ماضی میں من پسند نتیجہ حاصل کرنے اور کسی کو ہرانے کا عمل اس حد تک فن کا درجہ حاصل کر گیا تھا کہ بظاہر پولنگ والے دن کہیں سے دھاندلی کی رپورٹ نہیں ملتی تھی۔ لوگ آزادانہ طور پر اپنی مرضی سے ووٹ ڈالتے نظر آتے تھے لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ایسا جادوئی عمل وقوع پذیر ہو جاتا تھا جو ہار جیت پر اثر انداز ہوتا تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے جو نگران سیٹ اپ بنایا جاتا تھا وہ سیاسی جماعتوں یا برسراقتدار جماعت کی رضامندی سے نہیں بلکہ راتوں رات امپورٹ کیا جاتا تھا اور یہ سب تب ہوتا تھا جب کوئی منتخب حکومت وقت سے پہلے ختم کر دی جاتی تھی۔ بے یقینی اور عدم استحکام جو ہمارے جمہوری نظام کی پہچان رہا ہے کے تحت اچانک خبر ملتی کہ فلاں پارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فلاں کو نگران وزیراعظم بنا دیا گیا ہے۔ پردہٴ اسکرین پر کوئی اور پیغام رقم ہوتا تھا اور پس پشت کسی اور اسکرپٹ پر کام ہو رہا ہوتا تھا۔ ایک طاقتور ہاتھ جو بظاہر نظر نہیں آتا تھا مگر اپنی کارروائی کے ذریعے ملک میں سیاسی تبدیلی کے عمل پر اسٹیمپ لگوا لیتا تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تبدیلی ووٹوں کے ذریعے آئی ہے۔
1993ء میں نواز شریف کی حکومت قبل از وقت ختم کر کے معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنا دیا گیا اور اس کی نگرانی میں جو انتخابات ہوئے ان میں بے نظیر اور نواز شریف دونوں کے پاپولر ووٹ تقریباً برابر رہے مگر سیٹیں پیپلز پارٹی کی زیادہ تھیں۔ اسی طرح بے نظیر کی حکومت کے خاتمے پر ملک معراج خالد نگران وزیراعظم بنے تو نواز شریف جیت کر آ گئے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ادوار کے دوران ہونے والے انتخابات میں جیتنے والوں کے ووٹوں کا تناسب ہارنے والوں کے ووٹوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا تھا اور بعض اوقات تو ووٹ ایک جتنے ہوتے تھے لیکن سیٹوں میں فرق ہوتا تھا۔ یہ تجربے بظاہر صاف اور شفاف تھے مگر درونِ خانہ تاریخ پر کئی سوالیہ نشان رقم کر گئے۔ ان تمام تلخ تجربات سے پاکستان کی سیاسی قوتوں نے سبق سیکھا اور یہ فیصلہ کیا کہ اگر الیکشن کرانے ہیں تو پھر انہیں قابل اعتبار بھی ہونا چاہئے اور اس کے لئے موواور کے تحت ایسے اقدامات کئے جائیں تاکہ کوئی فریق انتخابات کے نتائج کو متنازع بنا سکے اور نہ ہی آگے چل کر حکومت کو غیر مستحکم کر سکے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی جمہوری حکومتوں کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران برسراقتدار حکومتوں کے سارے اختیارات ختم ہو جاتے تھے اور وہ اپنی مرضی سے ایک ایس ایچ او کا بھی تبادلہ نہیں کر سکتی تھیں کیوں کہ یہ تمام معاملات الیکشن کمیشن کے اختیار میں آ جاتے تھے۔ کمیشن کے اراکین کو پاکستان کا صدر نامزد کرتا تھا اور جب چاہے ہٹا بھی سکتا تھا۔ اب صدر ان ارکان کو نہ ہی نامزد کرتا ہے اور نہ ہی ہٹا سکتا ہے بلکہ پارلیمینٹ کے ذریعے برابری کی بنیاد پر تمام جماعتوں کی باہمی رضامندی سے ان ارکان کی نامزدگی کی جاتی ہے۔ عوام کی منتخب کردہ پارلیمینٹ کی متفقہ رائے سے منتخب شدہ ارکان الیکشن کمیشن کی مدت تقرری بھی طے کر دی گئی ہے اور اس مقررہ مدت تک انہیں نہ تو ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ کسی اور اسامی پر تعینات کیا جا سکتا ہے جس طرح پہلے الیکشن کے بعد انعام کے طور پر کسی اور بڑی اسامی پر لگا دیا جاتا تھا یعنی لالچ اور خوف دونوں ختم کر دیئے گئے اور اختیارات کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا۔ اب ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایک آزاد سیٹ اپ موجود ہے اور یہ نہ صرف ایک مثال ہے بلکہ ایک نئی روایت ہے جس کا آغاز پاکستان سے ہوا ہے اور اس میں جو پیغام مضمر ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بقا کیلئے ہر قربانی دینے اور ہر وہ رستہ اختیار کرنے کو تیار ہیں جس کے باعث آمرانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو جمہوریت کا بستر گول کرنے کا موقع نہ ملے۔
حکومت اور اپوزیشن نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے بلکہ آئین کے تحت صرف حکومت اور اپوزیشن نگران حکومت کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں مگر مبارک باد کے مستحق ہیں دونوں پارٹیاں جو پارلیمینٹ سے باہر کی جماعتوں کو بھی مشاورت میں شامل کر رہی ہیں۔ جہاں حکومت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو ثابت کرنے کیلئے اپنی استعداد، فرائض اور دائرہ کار سے بڑھ کر کام کیا ہے وہیں پاکستانی عوام نے انتہائی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے پانچ سالوں کے دوران مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہوئے کسی آمرانہ اقدام کی حمایت میں دلچسپی ظاہر نہیں کی بلکہ ایسے عوام کو ناپسند کر کے جمہوریت نوازی کا ثبوت دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ان تمام عوامل سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی معاشرہ بلوغت اور پختگی کی شاہراہ پر آگے بڑھ رہا ہے اور وہ چند افراد کی بجائے ایک نظام کی مضبوطی کے لئے کوشاں ہے۔ یہ وہ خوش آئند فیصلہ ہے جو جمہوریت کی گاڑی کو اس کی پٹڑی پر رواں رکھے گا۔
تازہ ترین