• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے نادرا آفس میں ڈیڑھ گھنٹہ تک آمنے سامنے بیٹھ کر تبادلہ خیال کے بعد طبعی عمر کے تقاضوں کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کو نہ پہچانا یا تجاہل عارفانہ سے کام لیا؟ یہ فیصلہ ہم آپ نہیں کرسکتے۔
مقبول اینکرپرسن اور سینئر صحافی حامد میر نے غیر رسمی بریفنگ کے بعد کھانے کی میز پر مجھے بتایا کہ فخر الدین ابراہیم کو نادرا آفس کی بریفنگ میں مدعو کرنے والوں نے آرمی چیف کی شرکت کا بتایا نہ دوران بریفنگ ایک دوسرے سے تعارف کی رسم ادا کی۔ یوں فخرو بھائی کے بقول وہ تذبذب کا شکار رہے کہ آیا ان کا مخاطب آرمی چیف ہے یا کوئی دوسرا جرنیل۔ فخرو بھائی آج تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس اخفا اوررازداری کا مقصد کیا تھا؟
آرمی چیف کو نہ پہچان پانا چیف الیکشن کمشنر کاکریڈٹ ہے یا بشری غلطی؟ اس سے قطع نظر یہ سوال اب ہر حلقے میں زیربحث ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن نے اپنی سیاسی ضرورتوں، فوجی قیادت کو نیچا دکھانے اور ہر حال میں مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے کیلئے بھی کسی عمر رسیدہ ،قوتِ فیصلہ سے محروم اور موم کی ناک کو نگران حکومت کا سربراہ نامزد کردیا جوسپریم کورٹ کے ایک درجن سے زائد فیصلوں پر عملدرآمد سے عاری، نادہندگان، جعلساز اور جرائم پیشہ افراد کی انتخابی عمل میں شمولیت کے نتائج سے بے خبر، رن آف الیکشن کے دوران دھاندلی کی تکنیک سے ناواقف اور الیکشن کے روز دھونس اور دھن کا مقابلہ کرنے سے قاصر مگر ذاتی زندگی میں دیانتدارہوا تو اس لاحاصل انتخابی مشق کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
فخرو بھائی جیسے اصول پسند اور دیانتدار چیف الیکشن کمشنرکی موجودگی میں ترقیاتی فنڈز کا اجرا اور خوردبرد جاری ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جعلی قرار دی گئی 27ڈگریوں کو الیکشن کمیشن نے درست قرار دے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن سے مذاکرات کے لئے قائم کی گئی 8رکنی پارلیمانی کمیٹی کے 4ارکان کی ڈگریاں غیرتصدیق شدہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ تاحال معرض التوا میں ہے اورموجودہ ارکان اسمبلیوں کی ڈگریوں کی تصدیق کا عمل بھی چودھری نثار علی خان کے دباؤ پر تعطل کا شکار ہے جس سے الیکشن کمیشن کے ناقدین کو یہ کہنے کاموقع مل رہا ہے کہ فخرو بھائی کی دیانتداری کو الیکشن کمیشن کے شو کیس میں سجا کر روایتی سیاستدان من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔
آرمی چیف کو تو اس سے غرض نہیں کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں اچھے لوگ اسمبلیوں تک پہنچیں یا برے وہ بدترین لوگوں کے ساتھ گزارا کرنے کے عادی ہیں۔ پانچ سال صبر و تحمل سے گزار لئے ۔ آٹھ نوماہ اور سہی، جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیاناس۔ سیاسی نابغوں کی الزام تراشی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی سرپرستی کا طعنہ اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کی سازشی کہانی تیر سینے پر سہنے والے جرنیل پرامن، شفاف اور غیرجانبدارانہ، آزادانہ انتخاب کے ذریعے انتقال اقتدار کی کلغی سر پر سجانے کے آرزومند ہیں اور الیکشن کمشنر کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لئے پرعزم تو کسی کو بھلا کیا اعترا ض ہوسکتا ہے مگر کیا الیکشن کمیشن کو بھی برے بھلے کی تمیز نہیں کرنی چاہئے۔ آئین، انتخابی قوانین اور جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر انتخابات کا دروازہ ہر بدکار، ڈکیت، قومی وسائل کی لوٹ مارکرنے والے جعلی ڈگری ہولڈر اور ٹیکس چور و قرضہ خور کے لئے چوپٹ کھول دینا چاہئے؟ اس سوال کاجواب ہر اس شخص کو دینا چاہئے 16مارچ کے بعد قوم کی قسمت جس کے ہاتھ میں ہوگی۔
عام پاکستانی شہری پانچ سال سے بدترین جمہوریت کے انتقام کی زد میں ہیں۔ انہیں ضروریات ِ زندگی سے محروم کردیا گیا ہے۔ جب تک لوگ درجنوں لاشیں سڑکوں پررکھ کر احتجاج نہ کریں ان کاجائز مطالبہ پورا نہیں ہوتا۔ پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا امریکہ اور بھارت نے کم اپنے حکمرانوں اورسیاستدانوں نے زیادہ کیا تاکہ اپنی نااہل، لوٹ مار اور بدانتظامی پر پردہ ڈالنے میں آسانی ہو۔
اب قوم ایسی نگران حکومت چاہتی ہے جو این آئی سی ایل، ایفیڈرین ، حج، رینٹل پاور ، اوگرا مقدمات میں عدالتی فیصلوں پر من و عن عملدرآمد کرکے نہ صرف قومی دولت مجرموں سے اگلوا سکے بلکہ قومی سیاست کو لٹیروں، رسہ گیروں اور عوام دشمن جاگیرداروں، سرمایہ داروں سے واگزار کرائے۔ آئین کے آرٹیکلز 63,62 کی روشنی میں انتخابی عمل قومی خدمتگاروں، ایمانداروں اور تجربے کی دولت سے مالا مال سیاسی کارکنوں کے لئے سازگار اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دھن، دھونس، دھاندلی کا کلچر متعارف کرانے والوں کے لئے سبق آموز ثابت ہو۔
قوم کی توقعات بدترین جمہوریت اوراسے پروان چڑھانے والے موقع پرست روایتی سیاستدانوں سے نہیں۔ تبدیلی کے علمبردارسیاستدان تاحال منتشر اور نرگسیت کا شکار ہیں جبکہ سٹیٹس کو کے حامی اپنی صفیں سیدھی کرچکے، مرضی کی حلقہ بندیوں، انتظامیہ، پولیس اور نگران سیٹ اپ کی موجودگی میں وہ اپنی کامیابی کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ عوام ایک چیف کی جمہوریت پسندی، دوسرے کی انصاف پروری اورتیسرے کی اصول پرستی کا ثمر ایک ایسی حکومت کے قیام کی صورت میں پانے کے متمنی ہیں جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔ دہشت گردی، کرپشن اور روز افزوں معاشی زوال کا خاتمہ کرنے کی اہل اور عدالتی فیصلوں پرعملدرآمد کی خواہشمند ہو گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔
یہ تینوں چیف ایک دوسرے کو پہچانیں نہ پہچانیں اپنی الگ الگ ڈفل بجائیں یا ایک ہی لائن لینتھ پر ہوں عوام کو بھلا ان سے کیا لینا دینا۔ کسی کی اصول پسندی، جمہوریت پرستی اور انصاف پروری عوام کی بھوک پیاس، غربت وافلاس، جہالت و امراض اور محرومی و مایوسی کاخاتمہ نہیں کرسکتی تو یہ خودنمائی، خودپرستی، خود ثنائی اور خودبینی کے سوا کیا ہے؟ خالی خولی دعوے نہیں عمل حضور! کہ لوگ ہر ایک کو اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
تازہ ترین