• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبح اٹھ کر اخبارات دیکھے تو دو مرحوم افراد بہت یاد آئے۔
پہلا مرحوم تو کراچی کا بُڈھا اور بدگو پارسی ارد شیر کاؤس جی ہے۔ دوسرے مرحوم کا تذکرہ اس کالم کے آخر میں آئے گا۔ اخباروں میں خبر یہ تھی کہ وفاقی حکومت نے پی آئی اے کے معاملات درست کرنے کے لئے ایک سو ارب روپے کا Bail outپیکیج منظور کرلیا ہے۔
کاؤس جی کا یہ تاریخی فقرہ ریکارڈپر ہے کہ”سالا …گٹر تو بنا نہیں سکتے ،ایٹم بم بنانے چلے ہیں۔سیمنٹ میں بجری زیادہ ملا کر بلڈنگ بنادیتے ہیں اور اوپر لکھ دیتے ہیں اللہ اس کی حفاظت کرے“۔
سوچا اگر آج کا ؤس جی زندہ ہوتے تو اس Bail outپیکیج پر کچھ یوں تبصرہ کرتے”لو سالا…ایک سو ارب روپیہ پھر پی آئی اے کے گٹر میں پھینک دیا، سالا…مکھی اڑانے کا سلیقہ نہیں اور جہاز اڑانے چلے ہیں…سب بے شرم ہیں…سالا“۔
بھیا…بات یہ ہے کہ اس وطن بے امان میں سب”پھینکو“ ہیں۔ لمبی لمبی پھینکتے ہیں بڑی بڑی باتیں کرکے لوگوں کو بہلاتے اور کام چلاتے ہیں ہمیں بتاتے ہیں۔
”گوادر کی بندرگاہ ، چین کے حوالے، علاقائی توازن پاکستان کے حق میں ہوگیا“
”غوری میزائل چل گیا، ایٹم بم بھی لے جاسکتا ہے“۔
”زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے، ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا“
”دہشتگرد ہمارے دشمن ہیں/ نہیں ہمارے بچے ہیں“
”اٹھارویں ترمیم…پارلیمنٹ کی بالادستی… وغیرہ وغیرہ“۔
بتایئے … ان بڑی بڑی باتوں سے بھلا اپنا کیا لینا دینا، اونچی اونچی باتوں سے کسی کا پیٹ بھرتا نہیں، ہمیں تو یہ بتاؤ ظالمو کہ سب کو روزگار مل گیا ؟سب کو پیٹ بھر کر روٹی مل گئی؟ سب کی جان سلامت ہے!!ہمارے ساتھ سردار ہرنام سنگھ والا حال مت کرو جس نے اپنے دوست سے کہا
”دیکھو… میرے گھر میں بہت سُکھ اور شانتی ہے، میں نے اور میری بیوی نے ذمہ داریاں بانٹ رکھی ہیں، سب چھوٹے چھوٹے کام اس کے ذمہ اور بڑے بڑے کام میرے ذمے“۔
دوست نے پوچھا”چھوٹے چھوٹے کام کون سے،جو آپ کی بیوی کرتی ہے“۔
سردار نے کہا”بچے پالنا، کپڑے دھونا، کھانا، پکانا، صفائی ستھرائی وغیرہ وغیرہ۔
دوست نے کہا”اور آپ بڑے بڑے کام کون سے کرتے ہیں“
ہرنام سنگھ نے کہا”میں مسئلہ کشمیر، پاک بھارت تعلقات ،امریکہ روس کی ایٹمی دوڑ وغیرہ بڑے معاملات پر غور کرتا ہوں“
سچ یہ ہے کہ ہمیں حکمران ہی مجبور اور معذور ملے ہیں جو بقول شخصے ”میں چل بھی نہیں سکتا اور تم دوڑ جاتے ہو“ کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ ان پر لعنت ملامت سے بہتر ہے کہ ان سے ہمدردی کی جائے۔ آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں تو آئیے ان حکمرانوں کی ”اوقات“ کا جائزہ لیتے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری کی ا صل”معذوری“ کا ذکر کروں تو اس کے نتائج میرے لئے سنگین ہوسکتے ہیں، اس لئے ان کی مجبوریوں کا ذکر ہی مناسب رہے گا۔ وہ مجبور ہیں، پیسے کے ہاتھوں، دوستوں کے ہاتھوں، اقتدار کی وجہ سے، سپریم کورٹ کے باعث، فوج کے ڈر سے ، امریکہ کے دباؤ پر وغیرہ وغیرہ۔
ان کے آبائی صوبے سندھ کو لے لیجئے، کیا آپ قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ کہیں گے؟ ہرگز نہیں کیونکہ سندھ پر آدھی حکومت تو”ادی“ (ادی سندھی میں بڑی بہن کو کہتے ہیں) اور آدھی حکومت Half brother”ٹپی“ کی ہے۔ تو اس ”ادی ٹپی“ حکومت کی موجودگی میں قائم علی شاہ صوبے کے حکمران کیوں کر ہوسکتے ہیں؟وہ تو زیادہ سے زیادہ اپنے آبائی شہر خیر پور کے ضلع دار کہلا سکتے ہیں کہ وہیں کسی کھجور کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر بھگت کبیر کی بانی گائیں #
صاحب نے بھنگ پلائی
اکھیوں میں لالی چھائی
بلوچستان کے مفرور وزیر اعلیٰ کو ہی لے لیجئے!ٹی وی کیمروں کے سامنے ان کی گفتگو ”ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا جعلی“صاف بتاتی ہے کہ وہ بھی کھِسکے ہوئے تھے۔ پیسوں کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھے۔ ساتویں مالیاتی ایوارڈ کی ساری رقم اپنی کابینہ کے ہمراہ چٹ کرگئے اور ڈکار بھی نہیں لی۔ اللہ انہیں چند شادیاں اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بے چارے نام کے ہی حاکم ہیں، ان کا آدھے سے زیادہ صوبہ PataاورFataکے نام پر ان کے کنٹرول سے باہر ہے انہیں زیادہ سے زیادہ وادی پشاورکا وزیر اعلیٰ ہی کہا جاسکتا۔ پھر بے چارے ایک طرف اپنے ماموں کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ،دوسری طرف اپنے والد گرامی کی…اکیلا معصوم شاہ بے چارہ کیا کیا کرے!
اب آتے ہیں ،آدھے سے زیادہ پاکستان کے بااختیار حکمران وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف… موصوف اور ان کا خاندان1985ء سے اب تک وقفے وقفے سے اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ یہ حضرت بڑی بڑی باتیں ہی نہیں کرتے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے بڑے بڑے کام بھی کرتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال لاہور میں30ارب روپے سے میٹر و بس کا اجراء ہے (جبکہ رواں مالی سال کے دوران پورے جنوبی پنجاب کا ترقیاتی بجٹ صرف10ارب روپے تھا) مگر ان سے چھوٹے چھوٹے کام نہیں ہوپاتے، اس کی تازہ ترین مثال کل کے اخبار میں چھپنے والی یہ خبر ہے کہ فروری2012ء سے آج تک صرف لاہور میں تقریباً 2لاکھ نئی موٹر سائیکل رجسٹرڈ ہو کر سڑکوں پر آئیں۔ ان 2لاکھ افراد سے4سو روپے فی کس کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹوں کے وصول کئے گئے۔8کروڑ روپیہ سرکاری خزانے میں چلا گیا مگر کسی کو یہ نمبر پلیٹ آج تک نہیں ملی… ایسی بلندی ایسی پستی!!
شیشے کی دیوار نہ ٹوٹی، تارے توڑنے والوں سے
ہم عوام ،سردار ہرنام سنگھ کی طرح تنگ آچکے ہیں مگر یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کریں کیا!
سردار جی نے اپنے ایک دوست سے کہا”یار میں ایک عجیب مشکل میں پھنس گیا، کچھ حل سمجھ میں نہیں آتا!“
دوست نے پوچھا،”مسئلہ کیا ہے“
سردار جی بولے…”یار بیوی میک اپ بہت کرتی ہے، اس کا خرچہ برداشت نہیں ہوتا،لیکن وہ میک اپ نہ کرے تو پھر بیوی برداشت نہیں ہوتی!
کالم کے شروع میں دو مرحوموں کا تذکرہ آیا تھا، ایک پر بات ہوچکی دوسرے مرحوم صوفی غلام مصطفی تبسم ہیں۔ کبھی بچپن میں ان کی ایک نظم پڑھی تھی آج وہ آپ کو پڑھانا چاہتا ہوں، مگر برائے مہربانی اس نظم سے کوئی سیاسی پیغام اخذ کرنے کی کوشش نہ کریں نہ اسے کھینچ تان کر ان شخصیات کے گرد لپیٹیں جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا۔ نظم پڑھئے اور سر دھنئے۔
پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار
ایک چوہا رہ گیا پیچھے باقی رہ گئے چار
چار چوہے جو باقی رہ گئے ،لگے بجانے بین
ایک چوہے کو آگئی کھانسی باقی رہ گئے تین
تین چوہے جو رہ گئے باقی ،آؤ گھر کوبھاگ چلو
ایک چوہے نے بات نہ مانی ،باقی رہ گئے دو
دو چوہے جو رہ گئے باقی ،دونوں ہی تھے نیک
ایک چوہے کو کھاگئی بلی، باقی رہ گیا ایک
ایک چوہا جو رہ گیا باقی، کرلی اس نے شا دی
بیوی اسے ملی لڑاکا، یوں ہوئی بربادی
تازہ ترین