• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ ماضی کے تقریباً سارے خوش عنوان تاثرات و توقعات قطعی مختلف اور متضاد ثابت ہوئے مگر ہم توقعات باندھنے سے چندا گریز نہیں کرسکتے اور ہر مرتبہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ رفتار کسی گاڑی کی نہیں ہوتی اس سڑک کی ہوتی ہے ۔جس پر گاڑی چلتی ہے۔ پاکستان کے آئندہ عام انتخابات کے بارے میں بھی جو تیاریاں اور انتظامات بتائے جاتے ہیں۔ ان سے یہی تاثر ملتا ہے اور اس نوعیت کی توقعات پیدا ہوتی ہیں کہ ہم ماضی کے اندھیروں ا ور حالات کی مشکلات سے نکل آئے ہیں اور ہمارے مستقبل کے حکمران اگر سو فیصد فرشتے نہیں ہوں گے تو فرشتوں جیسے ضرور ہوں گے کیونکہ کرپٹ، بددیانت، چور، ڈاکو،غیر ذمہ دار، وعدہ خلاف اور فرض ناشناس امیدواروں کے لئے عام انتخابات کے اندر سے گزر کر ایوان اقتدار و سیاست کے اندر داخل ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی منفی قسم کا امیدوار الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب بھی ہوگیا تو پولنگ بوتھ کو پار نہیں کرسکے گا جو قانون کی طرح مکڑی کا جالا بن چکا ہے کمزور جس میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور طاقتور جس کو توڑ کے نکل جاتے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے اگر کرپٹ، بددیانت، چور، ڈاکو، غیر ذمہ دار، وعدہ خلاف اور فرض ناشناس لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ایوانوں میں نہیں جاسکیں گے تو کہاں جائیں گے اور ان کی جگہ کون اور کیسے لوگ لیں گے۔ ان کے بغیر اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں اور سیاست کے میدانوں کی رونق کہاں سے آئے گی۔ یقین تو مشکل سے آئے گا مگر ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم لوگ مفروضوں میں زندہ رہتے ہیں۔ شبہ ہونے لگا ہے کہ شاید ہم پر یہ الزام غلط نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارا محض وہم یا مفروضہ ہو کہ سیاست دنیا کا سب سے زیادہ مہنگا اور اتنا ہی نفع بخش کاروبار ہے اور یہ کاروبار جائز کمائی کی دولت سے نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر سالانہ ترقی والی ملازمتوں کے لوگ تو سیاست کے میدان سے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ یہ بھی شاید ہمارا مفروضہ ہی ہوگا کہ ہر خوش نصیبی کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ضرور ہوتا ہے۔ پاکستان میں عام طور پر کاروباری لوگ تین قسم کی چوریوں کے ذریعے امیر یا دولت مند بنتے ہیں۔ ایک سرکاری ٹیکس کی چوری دوسری واپڈا کی بجلی کی چوری اور تیسری بینکوں کے قرضوں کی چوری مگر اس سطح کے چور بھی انتخابی سیاست میں داخل ہونے کا نہیں سوچ سکتے جب تک کہ وہ منشیات، اسلحہ جات اور انسانی سمگلنگ جیسے کاروبار کی سرپرستی حاصل نہ کرلیں۔ بتایا جاتا ہے اور اندازہ بھی ہوتا ہے کہ آنے والے عام انتخابات یہ مذکورہ بالا مفروضے بھی غلط ثابت کردیں گے اور کوئی بھی بدبودار شخصیت انتخابی چھلنی کے احتساب کو عبور نہیں کر سکے گی۔
بلاشبہ اگر ایسا ہوگا تو زمانہ بعد از عام انتخابات، زمانہ قبل از عام انتخابات سے قطعی طور پر مختلف اور انقلاب آفرین ثابت ہوگا اور ہماری آنے والی نسلیں سال 2013ء کے عام انتخابات کروانے والوں کا شکریہ ادا کریں گی اور خوشیاں منائیں گی کہ وہ قلت اور مشکلات کے دور سے افراط اور بہتات کے دور میں داخل ہو رہی ہیں اور زمانہ قبل از عام انتخابات کے لوگ پریشان اور آزاد ہوں گے کہ انہوں نے اپنی تمام قومی اور ملکی مشکلات کا علاج سال 2013ء جیسے عام انتخابات کی صورت میں کیوں نہ سوچا جو کہ بالشویک انقلاب سے بھی زیادہ مثبت تبدیلی لاسکتے تھے مگر اس کا کیا کریں کہ ہمیں رہ رہ کر ان کرپٹ، بددیانت، چور، ڈاکو اور غیر ذمہ دار لوگوں کا خیال آتا ہے جو ہم نے گزشتہ چھیاسٹھ سالوں کی شبانہ روز محنت سے وجود میں لانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ وہ تمام مذکورہ بالا لوگ نئے حالات میں کیا کریں گے؟ کہاں جائیں گے اگر کہیں نہیں جائیں گے اور معاشرے میں موجود ہوں گے تو اپنی موجودگی کو کہاں اور کیسے چھپائیں گے؟ اپنے کردار کو کیسے تبدیل کریں گے جب وہ ہر ایک چیز کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے یہ اجازت کیوں دیں گے کہ ہمارے نئے حکمران بجلی کی لوڈشیڈنگ، امن و امان کی صورتحال اور خطروں اور اندیشوں کی فضا کو تبدیل کرنے اور بہتر بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ بات پھر وہی سامنے آجاتی ہے کہ یہ مفروضہ غلط نہیں ہے کہ رفتار کسی گاڑی کی نہیں اس سڑک ہوتی ہے جس پر گاڑیاں چلتی ہیں۔
تازہ ترین