• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
مغربی معاشروں میں جب خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو اس سے پیدا ہونے والے انسانی مسائل پر کام کرنے والے ادارے بھی بننے لگے جو ایسے افراد کی نگہداشت کرتے ہیں جن کاکوئی نہیں ہوتا یا پھر یہ کہ جن کو ان کے اپنوں نے کسی نہ کسی وجہ سے چھوڑ دیا ہوتا ہے۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں حکومت کے ساتھ ساتھ خیراتی ادارے بھی بزرگوں اور انتہائی بیمار کا خیال رکھنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان ممالک میں انتہائی بیمار افراد کو یہ کہہ کر گھر نہیں بھیج دیا جاتا کہ چونکہ ان کے زندہ رہنے کی امید ختم ہوچکی ہے۔ اس لئے گھر میں جاکر موت کا انتظار کریں اور اذیت سہتے رہیں۔ ایسے مریضوں کو برطانیہ میں زندگی کی امید دلائی جاتی ہے اور ان کے آخری دنوں کے سفر کو آسان بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اس موقع کے لئے یہاں’’ HOSPICE ‘‘ہسپتال ، اولڈ ہومز او دیگر جگہیں موجود ہیں، اگر ایسے کسی فرد کے رشتہ دار اسے گھر میں رکھنا چاہتے ہیں تو وہاں پر بھی حکومت اور فلاحی ادارے اپنی نرسنگ اور ادویات وغیرہ فراہم کرتے ہیں گویا برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں زندگی کی اہمیت تو ہے ہی مگر جن سے زندگی روٹھ جاتی ہیں ان کو بھی اسی طرح سے مرہم فراہم کی جاتی ہے کہ وہ آرام کے ساتھ آخری سانسیں لے سکتے ہیں۔اس کے برعکس وطن عزیز (پاکستان) میں سب کچھ مختلف چل رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ابھی تک خاندانی نظام موجود ہے مگر افراتفری اور نفسا نفسی کے اس دور میں اپنے قریبی رشتہ دار بھی اپنے بزرگوں اور بیماروں سے نظریں چراتے پھرتے ہیں۔ ریاست کی جانب سے دی جانے والی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریض نظر آتے ہیں مرض کی غلط تشخیص اور درست علاج نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات مریضوں کو لا علاج قرار دے کر مرنے کے لئے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد اپنی پڑھائی پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اس انسانیت کو بھول جاتی ہے جس کی خدمت کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اندر بھی ایسے اداروں کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جو لا علاج اور قابل علاج مریضوں کا مفت علاج کریں اور انتہائی بیمار افراد کی آخری گھڑیوں کو آسان بنا دیں۔ اگرچہ پاکستان میں تھیلیسیمیا ،گردوں ، آنکھوں اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لئے بعض شہروں میں خیراتی ادارے کام کررہے ہیں مگر پیلی ایٹو(PALLIATIVE) کیئر کی سروسز نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے لا علاج مریضوں کی بڑی تعداد رایڑیاں رگڑ رگڑ اور کسی مسیحا کو پکارتے پکارتے اس دنیا کو خیر آباد کہہ دیتی ہے۔ ایسے میں برطانیہ کے بعض پاکستانی ڈاکٹروں نے پاکستان میں HOSPICE کی طرز پر PALLIATIVE کیئر کا کام بالکل مفت شروع کردیا ہے۔ شاہین پیلی ایٹو کیئر پروجیکٹر کے عنوان سے اس ادارے کی برطانیہ میں افتتاحی تقریب پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں ہوئی جس میں بعض ڈاکٹروں نے باقاعدہ آنسوئوں کے ساتھ روتے ہوئے ان حالات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے انتہائی بیمار افراد شدید اذیت میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنی زندگی ختم ہونے کی دعائیں کرتے ہیں۔ شاہین پیلی ایٹو کیئر کی ایک عہدیدار ڈاکٹر صدف مبشر کا کہنا تھا کہ بعض اوقات قابل علاج بیماریوں میں مبتلا افراد کو یہ کہہ کر گھر بھیج دیا جاتا ہے کہ ان کا مرض لا علاج ہے ۔ ان میں گردوں کے مریض بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان بیماریوں کا علاج مہنگا ہوتا ہے اس لئے بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مریض کو لا علاج قرار دے دیا جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتہائی بیمار افراد کی مدد کے لئے ان کا ادارہ یورپی طرز پر کا م کرے گا ۔ اس صورتحال کی شدت کو خود پاکستانی ہائی کمشنر نفیس زکریانے بھی محسوس کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خاندانی نظام کے مضبوط ہونے کے باوجود اس قسم کی صورتحال کا پیدا ہونا واقعی تشویش ناک ہے ۔ ڈاکٹر ایاز بٹ، ڈاکٹر ثوبیہ بلال، ڈاکٹر حمیرا جمال، نورین خان اور دیگر کئی لوگ اس مہم میں ڈاکٹر صدف کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے اندر PALLIATIVE کیئر کے اندر یہ پہلی کوشش ہے مگر جیسے قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح اگر ہم سب اس نیک مقصد میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تو نہ صرف انتہائی بیمار افراد کو زندگی دے سکتے ہیں بلکہ جن کا جانا ٹھہر گیا ہے انہیں آخری گھڑیوں میں کچھ سکون بھی دے سکتے ہیں! یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی ختم ہوگئی ہوتی ہے ! یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کسی نے بھی رہتی دنیا تک زندہ نہیں رہنا، سب کو جانا ہے، اگر ہم کسی کے لئے کوئی سہولت پیدا کریں گےتو کل کوئی دوسرا ہمارے لئے بھی سہولت پیدا کرے گا!۔
تازہ ترین