• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
کھلاڑی اور فنکار سرحدوں سے بے نیاز ہوکر اپنے کھیل اور فن کے ذریعے دنیا بھر میں امن کے سفیر بن کر پیار محبت، بھائی چارے کا پرچار کرتے ہیں جہاں بھی جاتے ہیں لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیتے ہیں۔ بلکہ اگر ایسا کہا جائے کہ زندگی مدوجزر کا نام ہے کئی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں کچھ واقعات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقت کی دھول کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ہر گزرے روز پھر سے تروتازہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے چاہنے والے انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ گوجر خان کے مضافاتی علاقہ سموٹ میں چوہدری محمد فاروق کے ہاں 17اکتوبر1991ء کو پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوکر کھیل کی دنیا میں ایسا نام پیدا کرے گا جو عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔ کھیل بھی والی بال یعنی ہینڈبال جو اتنامشہور بھی نہیں لیکن چوہدری محسن فاروق والی بال کھیلنے اور اپنے مخصوص انداز میں یا علی مدد کہہ کر دائیں ہاتھ سے ایسی سمیش لگاتا کہ دیکھنے والے دیوانے ہوکر نہ صرف حوصلہ افزائی کیلئے نعرے لگاتے بلکہ نوٹوں کی بارش کردیتے اور کاندھوں پر اٹھالیتے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیرملک میں جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے واقعات نے لوگوں کی ہنسی ہی چھین لی تھی، کرکٹ جیسے مقبول کھیل کی سیریز ہمیں دبئی میں کرانا پڑتی تھیں۔ کئی برسوں بعد 20/20پی ایس ایل کے فائنل اور حال ہی میں سری لنکا کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان سے کھیل کی واپسی ممکن ہوئی۔ ایسے مشکل اور کٹھن دور میں چوہدری محسن فاروق نے اپنی مختلف ٹیموں کے ہمراہ پاکستان کے کونے کونے، آزاد کشمیر کے دورافتادہ مشکل علاقوں میں اس کھیل کو نہ صرف مقبول کیا بلکہ نوجوانوں میں دلچسپی بڑھائی۔ مختلف علاقوں میں سفر کے دوران نیٹ اور والی بال والی پیچ دیکھی جاسکتی ہے۔ اس وجہ سے نوجوانوں کے اندر منفی سرگرمیوں، اسٹریٹ کرائم اور غیراخلاقی سرگرمیوں سے دور رہنےاور صحت مند معاشرے کا جذبہ بیدار ہوا بلکہ قوت برداشت اور مقابلے کا رحجان بڑھا۔ مجھے نہیں معلوم یا ہوسکتا ہے اس کالم کے شائع ہونے تک محسن فاروق کے کیس کا معاملہ حل ہوتا ہے یا نہیں۔ قتل ہے یا خودکشی اس پر متعلقہ ادارے پیش رفت کررہےہیں جلد یا بدیر انتظامیہ معاملے کی تہہ تک ضرور پہنچ جائے گی لیکن محسن فاروق کی اپنے پیارے لخت جگر 29سالہ بیٹے کی تصویر دونوں ہاتھوں میں لے کر سوشل میڈیا پرانصاف کی اپیل نے ہر دیکھنے والے کی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش کرادی۔ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی، جس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ اس کی بے وقت موت کی خبر آناً فاناً دنیا بھر میں پھیل گئی اس کے چاہنے والوں نے سموٹ کارخ کیا۔ خطہ پوٹھوار کے علاقے میں نماز جنازہ میں لوگوں کی شرکت سے اندازہ ہوسکتا ہے، ہزاروں افراد نے تھوڑا سا سفر گھنٹو میں طے کیا۔ جاتے جاتے بھی محسن فاروق نےہزاروں افراد کو اپنی نماز جنازہ میں اکھٹا کرکے جہاں باہمی اتحاد و اتفاق کی وسیع بنیاد رکھی وہاں ہمارے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ ایسے محسن صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جو لوگوں میں محبتیں بکھیرتے اور نفرتیں سمیٹتے ہیں۔ اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جن کے دشمن نامعلوم ہوتے ہیں یا معاملہ قتل یا خودکشی کے درمیان لٹک کر رہ جاتا ہے۔ ایک ماں کی فریاد پر انصاف کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ کسی ماں کو انصاف کی اپیل نہ کرنا پڑے کیونکہ مولا علی کا قول ہے معاشرہ کفر سے تو قائم رہ سکتا ہے، بے انصافی سے ہرگز نہیں۔
تازہ ترین