• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ایشین گیمز میں پاکستانی پہلوان بھی شریک تھا ۔اسکا پہلا مقابلہ ایک کورین پہلوان سے تھا ۔کورین پہلوان جان اور داؤ پیچ میں پاکستانی پہلوان سے بہت تگڑا تھا۔ ربڑ کے میٹ پر کشتی شروع ہوئی تو کورین پہلوان نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے پاکستانی پہلوان کو اٹھا اٹھا کر پٹخنا شروع کردیا۔ پاکستانی پہلوان کے ساتھ پاکستانی کوچ بھی تھے جو اس ساری صورتحال سے سخت پریشان تھے۔ آخر انہوں نے باہر سے اپنے پہلوان کو آواز لگائی”اوئے پہلوان داکیوں نئیں لاندا“ (او پہلوان تم مخالف کو داؤ کیوں نہیں لگاتے)پاکستانی پہلوان جو مخالف پہلوان کے نرغے میں تھا ۔اپنے کوچ کی طرف سے بار بار اس فقرے سے تنگ آکر جواب دیا”استاد جی اک واری میرے پیر تے تھلّے لگن دیو“(استاد جی ایک مرتبہ میرے پاؤں تو نیچے لگنے دیں)ہماری قومی کرکٹ ٹیم جو ان دنوں جنوبی افریقہ کے دورے پر ہے، اسکا بھی اسی پاکستانی پہلوان جیسا حال ہے یعنی جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ سے تیسرے ٹیسٹ تک انہوں نے ہمارے کھلاڑیوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیا۔قومی ٹیم کے کپتان مصباح الحق جو ہمارے ہیرو ہیں اور اچھے کرکٹر ہیں ۔ پاکستان کیلئے انکی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن انکا کھیلنے کا ایک خاص انداز ہے۔ یعنی وہ محدود اوورز کے میچز میں ٹیسٹ کی طرح اور ٹیسٹ میجز میں محدود اوورز کی طرح بیٹنگ کرتے ہیں۔ٹی ٹوئنٹی میچز میں ٹک ٹک بیٹنگ کی وجہ سے انہیں ایک روزہ اور ٹیسٹ تک محدود کردیا گیا لیکن اسکا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ لیکن اس میں مصبا ح الحق کی غلطی کم اور کوچ کی غلطی زیادہ لگتی ہے جو کپتان سمیت اپنے کھلاڑیوں کوبیٹنگ پر جاتے ہوئے یہ یاددہانی نہیں کراتے کہ بھئی آپ کون سی فارمیٹ کے میچ میں بیٹنگ کیلئے جارہے ہیں لیکن یہ انگلش ایسی نامراد زبان ہے کہ اس سے جان چھڑانے کیلئے جو لڑکے اسکول اور کالج کو چھوڑ کر کرکٹ کی طرف آئے ہیں وہاں بھی انگلش ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ اور کوچ ہر وقت انہیں انگلش میں لیکچر دیتے نظر آتے ہیں ۔ ہم شروع دن سے فیلڈنگ کی خرابی کا رونا رو رہے ہیں ۔ لیکن اب کھلاڑی بھی کیا کریں ۔ فیلڈنگ کا ایکسپرٹ بھی گورا ہے اور انگلش میں فیلڈنگ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ایک کوچ ایسا بھی ہے جو دیسی ہے اور باؤلنگ کوچ ہے ۔ لیکن ستم یہ ہے کہ وہ سمجھاتا تو اردو میں ہے ۔ لیکن جتنی اسکی سمجھ بوجھ ہے اس سے تو ٹیم کو ئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی باؤلنگ کوچ خود بھی پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔اچھی گیند کراتے تھے ۔ لیکن قومی ٹیم کا باؤلنگ کوچ ہونے کا فائدہ انہوں نے اپنی باؤلنگ یا کوچنگ سکل SKILLسے نہیں بلکہ ”گوجرخان“ سکل کی وجہ سے اٹھایا ہے۔ مشتاق احمد جو برطانیہ کی ٹیم کو اپنی کوچنگ کی وجہ سے کئی اہم کامیابیاں دلواچکا ہے اور پاؤنڈز میں رقم کما رہا ہے۔ وہ پاکستان کے لئے اپنی خدمات کی پیشکش کرکے خاموش ہوگیا ہے لیکن وہ ”گوجرخان“ اسکل کی وجہ سے مار کھاگیا ہے۔ لیکن پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کی یہ وجوہات نہیں ہیں بلکہ اسکی وجہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کی دوسری ”غلطیاں“ ہیں مثلاً انہوں نے ٹیم کے ساتھ جہاں اتنے ”جمعے“ سیر سپاٹے کیلئے بھیجے ہیں، وہاں ایک پاکستانی کیوریٹر بھی بھیج دیتے جو جنوبی افریقہ والوں کو ڈیڈ وکٹیں بنانا سکھاتے بھی اور حالیہ سیریز کیلئے ایسی وکٹیں بھی بناکر دیتے تاکہ جنوبی افریقہ کے باؤلرز ہماری ایسی درگت نہ بناتے پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں کئی اعزاز حاصل ہیں جس میں ورلڈ کپ کا انعقاد ”نیوٹرل امپائرز کی تقرری وغیرہ وغیرہ لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ہم نے ایک اور اچھوتا آئیڈیا نہ صرف دیا ہے بلکہ اسکا ثبوت بھی دے دیا ہے کہ پاکستان کیخلاف جب بھی باؤنسی وکٹوں پر ٹیسٹ میچ کھیلے جائیں وہ پانچ کی بجائے چار روزہ ہونے چاہئیں ۔ اس میں اگر یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مصباح الحق کی ”ٹک ٹک بیٹنگ “ کبھی بھی شروع ہوسکتی ہے تو ہم اسکے لئے انہیں سمجھا بجھا لیں گے ۔ وہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ چار روزہ ٹیسٹ کے آئیڈیے کے ساتھ ساتھ ایک آئیڈیا مصباح الحق کیلئے کہ وہ جنوبی افریقہ کے کپتان کو یہ کہہ کر آئیں کہ ”گھر میں توبلی بھی شیر ہوتی ہے اگر ہمت ہے تو پاکستان کا دورہ کرو اور جیت کے دکھاؤ “ باقی ہماری قسمت۔
تازہ ترین