• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب آپ کا تعلق میڈیا سے ہو تو آپ کو مختلف ذرائع سے ہر قسم کی خبریں ملتی رہتی ہیں لیکن میں نے ہمیشہ احتیاط کی کہ کوئی ایسی خبر نہ دی جائے جو کسی شخص خصوصاً کسی عورت کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہو۔ کچھ عرصہ قبل مجھے میرے ذرائع نے ایک سیاسی خاتون اور ایک سیاسی مرد کے بارے میں کچھ ایسے ثبوت فراہم کیے کہ میں اُس مواد کو دوسری نظر نہ دیکھ سکا۔ذرائع کا تعلق حکومت سے تھا نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے بلکہ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جس کے ہاتھ وہ ثبوت کسی طرح لگ گئے اور مجھ پر اعتبار کر کے وہ مجھے وہ مواد دینے آیا تھا۔ وہ نوجوان مذہبی ذہن رکھتا تھااور یہ بات جانتا تھا کہ ہمارا دین دوسروں کے عیب پر پردہ پوشی کا درس دیتا ہے۔ ہم دونوں اس بات پر متفق تھے کہ ایسے مواد کو کسی بھی صورت شائع نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے ذاتی طور پر ویسے بھی وہ مواد دیکھ کر اتنی گھن آئی کہ میں نے اُسے ضائع بھی کردیا۔ بعدازاں میں نے ایک اسلامی اسکالر سے بات کی اور پوچھا کہ اگر عیب کا تعلق ایسے افراد سے ہو جو عوام کی نمائندگی کرتے ہوں اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوں تو اُن کا کہنا تھا کہ ایسے عیب اگر معاشرہ کی خرابی کا باعث نہ بن رہے ہوں اور دو افراد تک ہی محدود ہوں تو پھر بھی ایک مسلمان کو اس پر خاموشی اختیار کر لینی چاہیے۔ ہاں اگر ایسے معاملات لوگوں کی زبان پر آ جائیں تو اُس کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے، کیوں کہ اس سے معاشرہ پر بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ایک ٹی وی شو میں کچھ سیاسی شخصیات کے بارے میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں جو اُن کی ذاتی زندگی سے متعلق تھیں اور جن کی شہرت کے بارے میں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ہر دوسرا شخص بات کرتا ہے ۔ میرا سوال یہاں یہ ہے کہ ایسے افراد پر آرٹیکل 62 اور 63 کا نفاذ کیوں نہیں کیا جاتا۔ وہ سیاسی جماعتیں، جن سے ایسے افراد کا تعلق ہے وہ ایسی شہرت رکھنے والے افراد کو الیکشن اور پارلیمنٹ سے دور رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داری کیوں نہیں ادا کرتے۔
کیا ہم ایسے ممبران پارلیمنٹ کو نہیں جانتے جو سب کے سامنے نہ صرف شراب نوشی کرتے ہیں بلکہ میڈیا میں شراب کے حق میں بات کرتے ہے اور اس کے علاوہ اپنے عورتوں سے تعلقات کے بھی حوالے دیتے ہیں۔ اگر ایسے معاملات کسی ممبر پارلیمنٹ کی عام شہرت کاحصہ بن جائیں تو پھر آئینی طور پر قابل گرفت ہونے کے باوجود متعلقہ سیاسی پارٹی یا الیکشن کمیشن ایسے افراد کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کے لیے کوئی کاروائی کیوں نہیں کرتے۔ آئین کے تحت کوئی شخص جواسلامی نظریہ پاکستان کو نہیں مانتا یا اس کی مخالفت کرتا ہے، وہ ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا مگر کتنے ہی ہمارے ممبران پارلیمنٹ ایسے ہیں جو کھلے عام نظریہ پاکستان کو رد کرتے ہیں اور پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی بات کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اُن کو الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹ بھی دیے جاتے ہیں اور الیکشن کمیشن میں بھی ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ایک وفاقی وزیر کی شہرت ایک جھوٹے شخص کی ہے۔ اُسے اپنوں اور پرایوں سب نے اسی شہرت کی بنیاد پر طرح طرح کے القابات دیے جبکہ ٹی وی چینلز پر بھی اس وزیر کے جھوٹا ہونے کی شہرت پر خوب مزاحیہ خاکے بنائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی جھوٹ بولے تو قانون میں اس کی کوئی سزا نہیں مگر ایسی شہرت رکھنے والوں کے لیے بھی ہمارا آئین پارلیمنٹ کے دروازے بند کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 میں کچھ شقیں ایسی ہیں جن کا تعلق مکمل طور پر شہرت سے ہے اور اُس کے لیے کسی عدالتی فیصلے کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ مثلاً 62(d) یہ کہتی ہے کہ ممبر پارلیمنٹ کو ایک اچھے کردار کا مالک ہونا چاہیے اور عمومی طور پر وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والا نہ جانا جاتا ہو۔ اسی طرح ایک دوسری شق میں یہ شرط بیان کی گئی ہے کہ ممبر پارلیمنٹ کو اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم ہونا چاہیے ، وہ اسلامی فرائض پورے کرتا ہو اور گناہِ کبیرہ سے بچتا ہو۔ ایک اور شق میں آئین یہ شرط بھی عائد کرتا ہے کہ ایسا شخص جوپاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرے یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتا ہو، ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ ان تمام شقوں میں کہیں بھی عدالتی فیصلے کا ہونا شرط نہیں جبکہ 62(f) جو ممبر پارلیمنٹ کے لیے امین اور صادق ہونے کی شرط عائد کرتی ہے، واضح طور پر یہ بات طے کرتی ہے کہ کسی کا امین یا صادق نہ ہونا صرف عدالتی فیصلہ کی بنیاد پر ہی تسلیم کیا جائے گا۔میاں نواز شریف نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں یہ وعدہ کیا کہ اُن کی جماعت آئینی شرائط کو پورے طریقے سے لاگو کرے گی۔ تمام سیاست جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی یہ بنیادی ذمہ داری پوری کریں تاکہ معاشرہ کے بہترین لوگ ہی پارلیمنٹ میں داخل ہو ں۔ جہاں تک میاں صاحب کے بیان کا تعلق ہے تو بہت جلد پتا چل جائے گا کہ کیا وہ اپنی بات پر عمل کریں گے یا سیاسی مصلحت پسندی کا سہارا لیتے ہوئے کچھ اہم سیاسی شخصیات کو ٹکٹ دیتے ہوئے اُن کی شہرت کو نظر انداز کرنا پسند کریں گے ۔
تازہ ترین