• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کی زیرِ صدارت تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال اور دیگر معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے پی آئی سی کے واقعے پر اظہارِ افسوس کیا گیا، بعض ارکان نے انتظامیہ کی جانب سے ایکشن میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا، وزیراعظم اور شرکا نے اتفاق کیا کہ اسپتال پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی، وزیراعظم نے واقعہ کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے ہر شعبے کا ہم نے تحفظ کرنا ہے۔ دوسری جانب انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پی آئی سی پر حملے کے الزام میں گرفتار 39وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور 7وکلا کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے مزید درجنوںوکلا کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ گرفتاریوں پر بطور احتجاج وکیلوں کی ہڑتال کے باعث ہزاروں مقدمات بغیر کسی کارروائی کے ملتوی ہو گئے، یہ ہڑتال پنجاب کے بعض دوسرے شہروں میں بھی ہوئی، دوسری جانب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی دوسرے روز بھی بند رہا اور دور دراز سے آئے مریضوں کو مایوس لوٹنا پڑا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے واقعے پر جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ اور 16دسمبر کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ پی آئی سی پر حملہ ایسا افسوسناک ہے کہ جس کا کوئی جواز تلاش ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ واقعہ بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے، کیا ہم تہذیب و تمدن کے حوالے سے ترقی معکوس کا شکار ہیں، کیا ہمارا سفر پیچھے کی طرف جاری ہے، کیا ہم نے اسلامی تعلیمات کو بھی تیاگ دیا ہے، پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بننے والا یہ واقعہ اس امر کی علامت نہیں کہ ہمارے ہاں اخلاقی اور انسانی اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں! کیا ہمارے ہاں پریشر گروپس بن چکے اور اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، اگر ایسا ہے تو کیوں اور کیسے کہ تاریخی شہادت اسی عمل کو سماج کے بخیے ادھیڑنے کی بنیادی وجہ قرار دیتی ہے۔ پی آئی سی کے واقعے کی ہر کوئی مذمت کر رہا ہے، جو بجا بھی ہے لیکن اس معاملے کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ کیا محض مذمت کافی ہے اور اس سے اصلاحِ احوال ممکن ہے، نہیں تو پھر دوسرا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ کسی بھی معاشرے میں لاقانونیت دراصل تب ہوتی ہے جب قانون کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تب ہر کوئی اپنی کمیونٹی میں ہی خود کو محفوظ خیال کرتا ہے، جو فطری امر ہے، تاہم کسی دوسرے پر حملہ کر دینا نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی۔ المیہ یہ ہے کہ معاشرے کے دو اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات یعنی وکیل اور ڈاکٹرز ایک دوسرے کے مقابل آ گئے، معمولی سے معاملے پر جذبات اتنے مشتعل ہو گئے کہ اسپتال پر حملہ کر دیا گیا ایسا تو دورانِ جنگ دشمن بھی نہیں کرتا۔ اس حوالے سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا موقف بھی سب پر عیاں ہے چنانچہ اسے قانونی طریقے سے حل کرنے کیلئے جوڈیشل کمیشن بہتر آپشن ہے۔ کوئی بھی فرد یا طبقہ قانون سے بالاتر نہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ قانون کی بالا دستی یقینی نہ بنائی گئی تو پھر انتشار کا پھیلنا آسان ہو جائے گا۔ واقعات اور شواہد سب کےسامنے ہیں لہٰذا جوڈیشل کمیشن کو اس کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ ملک کے سنجیدہ حلقے اس واقعہ کے تناظر میں ملک میں بڑھتے عدم برداشت اور جارحانہ رویوں پر غور کریں، خرابی کی بنیادی وجوہات تلاش کریں تاکہ معاشرے میں قیامِ امن کو یقینی بنانے کی سبیل کی جا سکے۔ اس حوالے سے علمائے کرام، اساتذہ، دانشوروں، ماہرینِ عمرانیات، سیاست دانوں، انسانی نفسیات کو سمجھنے والوں، مفکروں اور صحافیوں کو تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ معاشرے میں تحمل و بردباری کو فروغ ملے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔

تازہ ترین