• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں یو ایس ایڈ کے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں پاکستان کے چند ہونہار نابینا لوگوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ ان کے کارنامے سن کر مسرت بھی ہوئی اور حیرت بھی۔ اس سماج میں جہاں بینا افراد کے لئے تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے وہاں یہ باکمال نابینا افراد کیسے ایسے ہنر مند ہوئے؟اس پر حیرت گم ہے۔

نہ ان کو بریل میں کتاب دستیاب ہوتی ہے نہ تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں اور نہ ہی موبلٹی کی ٹریننگ ہے۔ اس سب کے باوجود یہ لوگ اتنے بڑے بڑے کارنامے کر چکے ہیں کہ ان پر صرف فخر کیا جا سکتا ہے۔

ان کی ہمت کی داد دیجئے۔ ان کے جذبے کو سلام پیش کیجئے۔ اس لئے کہ یہ اس احترام کے مستحق ہیں۔ ان آٹھ نادر زندگیوں کی مختصر داستان کچھ یوں ہے۔

سلمان ارشد کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ چھٹی جماعت میں بصارت سے محروم ہوئے تو سب اندھیر ہو گیا۔ اسکول، فٹبال، کتابیں، اساتذہ اور کلاس فیلوز سب نظر سے اوجھل ہو گئے۔ بینائی سے نابینائی کو تسلیم کرنے میں بہت عرصہ لگا۔ میڑک اسپیشل اسکول سے کیا اور اسلام آباد کالج فار بوائز سے ایف اے کرنے کے بعد زندگی کا ایک بڑا فیصلہ کیا۔

انہوں نے اپنا شہر چھوڑ دیا۔ اگر کچھ کرنا تھا تو خود کو انڈیپنڈنٹ بنا کر کرنا تھا۔ لاہور میں، پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس مینجمنٹ سائنسز میں کیا۔ اس دوران بہت سی انٹرنیشنل اور نیشنل ٹریننگز کیں۔ 2016ء میں کامن ویلتھ ورکر ایوارڈ جیتا۔ پاکستان میں ڈس ایبلٹی پالیسی بنانے میں مدد کی۔ اب دو ادارے پاکستان پیرا کلائمبنگ کلب اور اسکول آف انکلوژن کے نام سے چلا رہے ہیں۔

سلمان خالد کا تعلق لاہور سے ہے، ان کی بینائی تیرہ سال کی عمر میں گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے میری زندگی بہت مختلف تھی پھر سب کچھ بدل گیا۔ ہر چیز چیلنج بن گئی لیکن اپنے والدین، دوستوں اور اساتذہ کی مدد سے تعلیم جاری رکھی۔ بریل سیکھنے کے بعد میڑک فرسٹ ڈویژن میں کیا۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے انٹر کیا اور کمپیوٹر میں انٹر کرنے والا پہلا طالبعلم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایم اے کے بعد جی سی یونیورسٹی میں اسپیشل طلبہ کے انچارج کے طور پر سات سال ملازمت کی۔ رفاہ یونیورسٹی سے ایم فل میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔

گزشتہ تین سال سے اسپیشل ایجوکیشن پنجاب میں انگلش کے لیکچرار ہیں۔ میوزک میں خاص دلچسپی ہے اور نابینا افراد کی بہت سی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

ڈاکٹر راجہ عامر حنیف کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں بینائی کی نعمت مجھے کبھی بھی میسر نہیں تھی۔ والدین نے ہمیشہ بتایا کہ تعلیم ہی اصل روشنی ہے۔ ساری عمر علم کی روشنی کے تعاقب میں گزر گئی۔

بیشمار مشکلات کے باوجود پی ایچ ڈی کی۔ اعلیٰ تعلیمی کارکردگی پر ایچ ای سی کی جانب سے پی ایچ ڈی کیلئے اسکالر شپ کا اعزاز ملا۔ اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ بیرونِ ملک مکمل کی۔ آج گورنمنٹ کالج میں انیسویں گریڈ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

تعلیمی قابلیت کی وجہ سے انیسویں گریڈ میں ترقی اس برق رفتاری سے ہوئی کہ اب اپنے اساتذہ سے بھی سینئر ہیں۔ شاعری اور تقریر بھی میدانِ سخن رہے۔ اس میں بھی پورے پاکستان میں اعزازات حاصل کئے۔ ان کو پاکستان کے ٹاپ 100لوگوں میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ارم شبیر کا تعلق گجرانوالہ سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے بچپن سے آج تک کچھ نہیں دیکھا۔ نہ رنگ، نہ روشنی، نہ درخت، نہ پھول۔ والدین جانتے تھے کہ اس معاشرے میں اگر کچھ بننا ہے تو تعلیم ہی سہارا بنے گی۔

پہلے بریل میں تعلیم حاصل کی پھر آڈیو کیسٹس سے پڑھا اور اب کمپیوٹر سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ پہلا ایم اے وویمن اسٹیڈیز میں کیا اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ دوسرا ماسٹرز انگریزی ادب میں پنجاب یونیورسٹی سے کیا اور ایم اے کی تیسری ڈگری اسپیشل ایجوکیشن میں حاصل کی۔ اس کے علاوہ بیشمار کورسز بھی کئے۔ اس وقت اٹھارہویں گریڈ میں ایک گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ میں پرنسپل ہیں-

کوہاٹ کے شیر بہادر آفریدی کہتے ہیں کہ آج سے بیس سال پہلے ایک آپریشن کے نتیجے میں بصارت سے محروم ہوگیا۔ ان کا خواب ایک صحافی بننے کا تھا۔ نابینا ہونے کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم ایس سی ماس کمیونیکیشنز میں کی۔

اب کوہاٹ کی سطح پر نہ صرف ایک صحافی ہیں بلکہ اٹھارہ سال سے ڈی سی آفس کوہاٹ میں اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آل پاکستان یونین آف اسپیشل جرنلسٹس اور رائٹرز کے صدر ہیں۔ کوہاٹ میں اسپیشل افراد کی ایک تنظیم دوستی کی بنیاد ڈالی۔ نابینا ہونے کے باوجود کوہ پیمائی کا شوق ہے، اب تک پاکستان کی دو بلند چوٹیاں سر کر چکے ہیں۔

اسلام آباد کی معروف شاعرہ روبینہ شاد بتاتی ہیں کہ میں پیدائشی نابینا ہوں۔ میری زندگی میں حرف، لفظ اور آوازیں بہت اہم ہیں۔ انہی حروف کے تعاقب میں میرا شوقِ سفر مجھے میدان علم و ادب کی جانب لے گیا۔ تعلیم حاصل کرنا ایک نابینا خاتون کیلئے اس سماج میں از حد مشکل ہے۔ نہ کتابیں ملتی ہیں نہ درست طریقے سے پڑھانے والے۔

اس کے باوجود ایم اے اردو ادب کیا اور پھر اسپیشل ایجوکیشن میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت راولپنڈی ویمن یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ شعر کی دنیا کو اپنا شعار بنایا۔ لفظوں سے تتلیاں بنائیں اور شعروں کے رنگین پھولوں پر انہیں بٹھایا۔ شاعری میں نام پیدا کیا اور نابینا لوگوں کیلئے رضا کارانہ طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

پاکستان کے یہ قابلِ تحسین لوگ ہمارے لئے باعث فخر بھی ہیں اور اس سارے سماج کا سرمایہ افتخار بھی۔ یہ لوگ اس دور کے حقیقی چیمپئن ہیں لیکن یاد رکھیے اسی دور میں بہت سے نابینا بچے اسپیشل اسکولوں میں مناسب سہولتیں نہ ہونے کے سبب اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اُن کے سامنے صرف ایک تاریک مستقبل ہے۔ اُن پر فخر کرنے کیلئے، ان کو چیمپئن بنانے کیلئے ہم سب کو ان کی ہمت بڑھانا ہے، ان کو حوصلہ دینا ہے، ان کا احترام کرنا ہے۔

تازہ ترین