• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

برطانوی انتخابات، بورس جانسن کی تاریخی کامیابی، اگلے ماہ یورپی یونین سے نکلنے کا اعلان، 15 پاکستانی نژاد کامیاب

برطانوی انتخابات، بورس جانسن کی تاریخی کامیابی


لندن (آصف ڈار/مرتضیٰ علی شاہ) برطانوی تاریخ کے انتہائی اہم انتخابات میں حکمران ٹوری پارٹی نے غیرمتوقع طور پر بھاری اکثریت حاصل کرکے انتخابات سے پہلے ہونے والے سرویز کو غلط ثابت کردیا ہے جبکہ قریبی حلیف لیبرپارٹی کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے اور اس نے اپنی 59 سیٹس کھو دی ہیں جبکہ لبرل ڈیموکریٹس بھی کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی اور خود اس کی لیڈر جوسونسن اپنی نشست ہار گئی ہیں۔ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کا صفایا ہوگیا ہے تاہم برطانیہ سے علیحدگی کے لئے دوسرے ریفرنڈم کی حامی سکاٹش نیشنل پارٹی نے سکاٹ لینڈ سے تینوں بڑی پارٹیوں کا صفایا کردیا ہے۔ اس نے 48 سیٹس حاصل کرلی ہیں۔ 

لب ڈیم کی ایک سیٹ کم ہوگئی ہے اور اب اس کے پاس صرف13سیٹس ہیں۔ ان انتخابات میں پاکستان نژاد ارکان کی تعداد ریکارڈ 15 ہوگئی، اس سے قبل 12 پاکستان نژاد ایم پیز کا ریکارڈ تھا۔ دس لیبرپارٹی اور پانچ ٹوری پارٹی کی طرف سے منتخب ہوئے ہیں۔ 

پارلیمنٹ میں لیبرپارٹی 203 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ ٹوری پارٹی نے اپنی 47 سیٹس بڑھاتے ہوئے تعداد 365 تک پہنچا دی ہے جبکہ کسی بھی پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے 326 سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ ڈی یو پی کی دو سیٹیں کم ہوکر 8 رہ گئی ہیں جبکہ گرین پارٹی اپنی ایک سیٹ کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ 

وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی کامیابی کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ 31 جنوری 2020ء تک برطانیہ کو یورپ سے نکال لیں گے کیونکہ اب انہیں عوام نے اس حوالے سے واضح مینڈیٹ دے دیا ہے۔ 

اب اگر مگر اور آئیں بائیں شائیں نہیں ہوگا بلکہ بریگزٹ کا عمل فوری طور پر مکمل کیا جائے گا جبکہ لیبر لیڈر جیرمی کوربن نے انتخابی نتائج کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے فوری طور پر پارٹی قیادت چھوڑنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ میدان سے نہیں بھاگیں گے اور پارٹی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جب پارٹی اپنا نیا لیڈر منتخب کرلے گی، وہ قیادت چھوڑ دیں گے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا کب ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سیٹ پر آئندہ انتخابات میں حصہ بھی لیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ جو کچھ کرسکتے تھے انہو ں نے کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے جبکہ سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا سٹرجن نے اپنی کامیابی کے بعد کہا کہ سکاٹ لینڈ کے عوام نے بریگزٹ کے خلاف اور یوکے سے علیحدگی کے لئے دوسرے ریفرنڈم کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اس لئے ویسٹ منسٹر حکومت کو سکاٹ لینڈ کے عوام کی آواز کا احترام کرنا پڑے گا جبکہ لب ڈیم کی لیڈر جوسوئنسن نے کہا کہ انہوں نے بریگزٹ کو رکوانے کے لئے آخری دم تک کوشش کی۔ 

وہ جانتی ہیں کہ بریگزٹ درست نہیں، اس لئے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نہیں رہیں۔ وہ کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے اس حوالے سے کوشش کی اور بریگزٹ مخالف آوازوں میں اپنی آواز کو شامل کیا جبکہ بریگزٹ پارٹی کے ناکام لیڈر نائیجل فراج نے کہا کہ انہوں نے لیبرپارٹی کو ہروا کر اپنا مقصد پورا کرلیا ہے۔ اگر وہ بریگزٹ پارٹی کے امیدواروں کو کھڑا نہ کرتے تو ٹوری پارٹی کو اکثریت نہ ملتی۔ 

موجودہ انتخابات میں ٹوری، لیبر اور لبرل ڈیموکریٹس کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ہیں۔ جمائما خان کے بھائی زیک گولڈ سمتھ سمیت کئی قابل ذکر لیڈر اپنی سیٹس کھو بیٹھے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بورس جانسن کی پارٹی کو 1987ء کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر بھاری اکثریت ملی ہے تاہم اس سے ان کی ذمہ داریاں بھی کئی گنا بڑھ گئی ہیں اور اب انہیں بریگزٹ کے حوالے سے اپنے پروگرام پر احتیاط سے عمل کرنا ہوگا۔ 

دوسری جانب عام انتخابات میں پاکستان نژاد ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے اور اب ان کی تعداد 15ہو گئی ہے۔ ان میں اکثریت ایسے ارکان کی ہے جو دوبار یا تیسری، چوتھی مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں سے دس ارکان کا تعلق لیبر پارٹی سے اور 5 کا ٹوری پارٹی کے ساتھ ہے، لیبر، ڈیموکریٹس اور دوسری جماعتوں کے ٹکٹوں پر کھڑے پاکستان نژاد امیدوار کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ 

سینئر پاکستان نژاد برطانوی سیاستدان خالد محمود مسلسل چھٹی مرتبہ برمنگھم کے حلقے پیری بار سے رکن منتخب ہوئے۔ ان کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔

تازہ ترین