• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ، ہندو گروپس نے لیبر پارٹی کو ہرانے میں کردار ادا کیا؟

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ٹوری پارٹی اور اس سے وابستہ دائیں بازو کے میڈیا نے مستقل جیرمی کوربین پر تنقید کی اور انہیں انتہا پسند اور شدت پسندوں کا حامی قرار دیا کیونکہ انہوں نے فلسطین اور کشمیر پر قبضے اور ساتھ ہی مسلمانوں اور اقلیتوں کیلئے اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہ ہٹنے اور سوشلسٹ خیالات کی حمایت کا عزم کر رکھا تھا۔ 

لیبر پارٹی کو سبخت تنقید کا سامنا رہا اور اس تنقید کو کنزرویٹیو جماعت کی حمایت حاصل تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب اکتوبر میں لیبر پارٹی نے سالانہ کانفرنس کے دوران مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ہنگامی تحریک پیش کی تھی جس میں کشمیر کو زبردست اپنا حصہ بنانے پر تنقید کی گئی تھی۔ 

تحریک میں کہا گیا تھا کہ متنازع علاقے میں انسانی بحران ہے اور علاقے کے لوگوں کو حق خود ارادیت دینا چاہئے۔ تحریک میں خطے میں بین الاقوامی مانیٹرز کو جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ 

جیسے ہی یہ قرارداد منظور ہوئی، بھارتی حکومت حرکت میں آگئی اور اس نے برطانیہ میں موجود بی جے پی اور آر ایس آیس کے حامی گروپس کی مدد سے جیرمی کوربین کیخلاف مہم شروع کی اور انہیں ’’ہندو مخالف‘‘ اور ’’بھارت مخالف‘‘ کہنا شروع کردیا۔ 

بھارت نے یہ کام اپنی تنظیم اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی (او ایف بی جے پی) کے ذریعے کرایا۔ اس گروپ نے برطانیہ میں موجود بھارتی کمیونٹی میں ایسے پمفلیٹس تقسیم کیے جن میں ہندو ووٹروں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ لیبر پارٹی کو ووٹ نہ دیں اور کنزرویٹیو جماعت کو ووٹ دیں جس نے اپنے منشور میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ 

لیبر نے بھارتی نژاد برطانوی ووٹروں کی تنقید کا جواب دیا اور کشمیر پر اپنا موقف تبدیل کیا لیکن ٹوری پارٹی سے جڑی مشینری نے نسلی بنیادوں پر کمیونٹیز میں رائے عامہ تبدیل کرنے کی مہم جاری رکھی۔ 100؍ سے زائد انڈین گروپس نے جیرمی کوربین کو احتجاجاً خطوط لکھے جنہیں میڈیا میں بھی پیش کیا گیا۔ 

بھارتی شہریوں کے ایک گروپ نے دیوالی کے موقع پر لندن کے میئر صادق خان کے ٹریفلگار اسکوائر پر خطاب کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ کئی کونسلرز اور لیبر پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں نے احتجاجاً پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کیے اور دائیں بازو کی قوتوں کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا۔ 

مکمل طور پر بے بنیاد باتوں میں آ کر دائیں بازو سے وابستہ برطانوی میڈیا اور بھارتی میڈیا کے کچھ حلقوں نے لیبر پارٹی کے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائیں اور بتایا کہ لیبر والوں کے شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ 

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب جے کے ایل ایف والوں نے مسٹر کوربین کو خط لکھ کر انہیں ان کے انتخابی منشور پر مبارکباد پیش کی تھی اور انہیں برطانیہ میں کشمیری عوام کی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔ 

لیبر پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پارٹی کا رسمی طور پر جے کے ایل ایف سے کوئی تعلق نہیں۔ لیبر پارٹی مسئلہ کشمیر کا پرامن سیاسی حل چاہتی ہے۔ ہندوؤں کے کئی مندروں میں عبادت گزاروں سے اپیلیں کی گئیں کہ جیرمی کوربین کی لیبر پارٹی کو ووٹ نہ دیں۔ 

الیکشن سے قبل، مغربی لندن میں برطانیہ کے سب سے بڑے مندر میں بورس جانسن کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا جہاں خطاب میں بورس جانسن نے نریندر مودی کی حمایت کا اعلان کیا اور بھارت مخالف قوتوں سے نمٹنے کا اعلان کیا۔ 

اسی موقع پر انہوں نے مودی کے ویژن کی تعریف کی۔ اسی طرح نیشنل کونسل آف ہندو ٹیمپلز نے ہندوئوں سے اپیل کی کہ وہ کنزرویٹیو جماعت کو ووٹ دیں۔ یہ اپیل کرتے ہوئے کونسل نے چیریٹی کمیشن کے قواعد کی خلاف ورزی کی۔ 

ہندو گروپس نے لیبر پارٹی کے دو سکھ ارکان پارلیمنٹ کیخلاف بھی مہم چلائی اور واٹس ایپ گروپس میں بھارتی نژاد ووٹروں سے کہا گیا کہ یہ ارکان ہمیشہ پاکستانیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں اور پاکستانی ہائی کمیشن جاتے ہیں۔ انتخابی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کی مہم برطانیہ میں مکمل مقیم انڈین کمیونٹی کی رائے تبدیل کرنے میں ناکام رہی لیکن تقریباً 12؍ کے قریب حلقوں میں یہ لوگ کنزرویٹیوز کو جتوانے میں کامیاب رہے۔ 

ٹوری پارٹی کے ایک لارڈ نے اس نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 30؍ حلقوں میں بھارتیوں نے اپنا اثر چھوڑا ہے لیکن او ایف بی جے پی کے رضاکاروں کا کہنا تھا کہ جیرمی کوربین کیخلاف احتجاج کی صورت میں 10؍ سے 15؍ نشستیں کنزرویٹیوز کے پاس گئی ہیں۔ 

وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ قوم کے زخموں کو بھرنے کا مقصد لے کر آئے ہیں اور قوم کو متحد کرکے قیادت کریں گے، آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلاموفوبیا اور نسل پرستی جیسے مسائل سے نمٹ کر وہ اپنے مقصد میں کیسے کامیاب ہوں گے۔

تازہ ترین