• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیب ہر معاملے میں آئیگا تو خوف و ہراس یقینی، اسکےاختیارات پر بات ممکن ،فواد

نیب کے اختیارات پر بات ممکن ،فواد 


کراچی(جنگ نیوز)پروگرام ”نیا پاکستان “ کے میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ نیب کے اختیارات پر اپوزیشن کیساتھ بات ہو سکتی ہے، نیب ہر معاملے میں آئے گا تو اس سے خوف و ہراس آتا ہے ہمارے ہاں ہر جگہ بیلنس آؤٹ ہے یہاں پر بھی تھوڑا سا ہوگا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ 129 ارب روپے پنجاب سے ریکور ہوئے ہیں ان ہی حکمرانوں نے جو ماضی میں حکمران تھے سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا ہوا تھا ایسٹ ریکوری یونٹ نہیں اصل مسئلہ اس وقت شہزاد اکبر ہے کیوں کہ شہزاد اکبر سے پہلے نثار گل، ملک علی احمد جیسے کرداروں کا کسی کو پتہ نہیں تھا پیپر کمپنیاں کیا ہوتی ہیں؟ جی این سی کیا ہے شہباز شریف کے گھر پر کون سا کیش بوائے ڈیلیور کرتا تھاجو ہم آہنگی پیدا ہوئی اداروں کے درمیان تمام ادارے مل کر آزادی کے ساتھ تفتیش کررہے ہیں ہم ان کو پلیٹ فارم مہیا کررہے ہیں۔

شہزاد اقبال نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیب پر تنقید سے آپ مشکل میں پڑسکتے ہیں نیب کی اداروں میں بے جا مداخلت کے سوال پر آپ کے خلاف تحقیقات شروع ہوسکتی ہیں، ایس ای سی پی پالیسی بورڈ کے سربراہ خالد مرزا نے نیب کی کارروائیوں پراعتراض اٹھانے، نیب کی مداخلت کی شکایت کرنے پر اب وہ خود نیب تحقیقات کی زد میں آچکے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ نیب ماتحت ادارہ ہے نیب آئینی ادارہ تو نہیں ہے نیب کا تو جو رول ہے وہ توحکومت اور پارلیمان نے طے کیا ہے جو اس کا یہ کردار ہے اور ان کی جو تین چار پاورز ہیں جن کے اوپر زیادہ بات چیت ہوتی ہے نیب کے اوپر جو تنقید ہے وہ اس لئے بھی ہے کے نیب بڑے طاقتور لوگوں کے خلاف انکوائریز اور انویسٹی گیشن کرتا ہے جب ان کے خلاف کارروائی کرے گا تو یقینی طور پر شور بھی زیادہ مچے گا نیب کے جو کچھ قوانین ہیں جو گرفتاری کی پاور ہے چیئرمین نیب کی وہ کیسے ایکسرسائز ہونی چاہئے اگر آپ نے کیس شروع کیا ہے تو اس کی انویسٹی گیشن کا کوئی ٹائم فریم ہونا چاہئے لمٹ ہونی چاہئے یہ کچھ ایسے ایشوز ہیں جن کے اوپر بات ہوسکتی ہے ابھی سینیٹ میں پیپلز پارٹی نے کچھ ترامیم موو کی ہیں ان میں کچھ ترامیم بہت اچھی ہیں لیکن یہ ساری باتیں تب ہوپائیں گی اگر حکومت اور اپوزیشن میں جو رفتار ہے۔

اس کو یہ کچھ مدہم کر سکیں میں نے تو کہا کہ عمران خان کو آپ نہیں اتار سکتے عمران خان پاکستان میں نہ صرف مشہور لیڈر ہیں وہ پاکستان کے اس وقت واحد قومی لیڈر ہیں تو ان کو آپ نہیں اتار سکتے لہٰذا آپ بات کیجئے کے ہم نے آگے کیسے چلنا ہے جب تک ادارے حدود پر بات نہیں کریں گے یہ بات ایسے ہی چلتی رہے گی،میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کے نیب کی وجہ سے ہی سارے معاملات خراب ہیں اگر نیب کے قوانین میں سقم ہے تو اس کے لئے اپوزیشن کو چاہئے کے اپنی تجاویز دیں یہ نہیں ہوسکتا کہ احتساب ہی نہیں ہونا چاہئے پاکستان میں جو ہمارا انسداد بد عنوانی بیانیہ ہے اس کو رہنا چاہئے بہت ضروری ہے جو بڑے بڑے مگرمچھ بیٹھے ہوئے ہیں ان کو پکڑا جائے۔ 

شہزاد اکبر نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ جو کام کررہا ہے وہ اداروں کو پلیٹ فارم فراہم کرنا مثال کے طور پر ایک پیچ ورک میں آپ نے کلپ چلایاجہاں پر ہم نے بتایا کے جو او آئی سی ڈی کے معاہدوں کے تحت اتنے پیسوں کا سرا غ اس میں ہمیں لگ گیا ہے اس میں ریکوریز ہوئی ہیں لیکن وہ ریکوری قانون کے تحت ایف بی آرکرتا ہے وہاں سے جب پیسے آتے ہیں ایف بی آر اس کی وصولی کرتا ہے جو پیسو ں کی ریکوری نیب کرتا ہے اس کی وصولی بھی نیب کرتا ہے اسی طرح سے ایف آئی اے کرتا ہے اب ایف آئی کی زیر نگرانی جو جے آئی ٹی بنی تھی اس میں آپ نے میرا کلپ دکھایا کے آٹھ سے نو ارب کی ریکوری ہونے والی ہے اسی جے آئی ٹی والے کیس میں اس وقت پندرہ ارب کی ریکوری اس میں ہوچکی ہے۔ 

ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ دو اسٹیپ پہلا اسٹیپ ٹریسنگ کرنے کا ہے کے آپ معلوم کرتے ہیں کے کتنا پیسہ باہر ہے وہ دو طر ح سے ہوسکتا ہے ایک اس طرح سے ہوسکتا ہے کے جس طرح اسحق ڈار نے کیبنٹ کو آکر بتایا تھا کہ بعد میں سینیٹ کے فلور پر بھی جاکر کہا تھاکہ اتنے سو ارب روپے باہر پڑے ہیں اس کی بنیاد کیا تھی میں نے اس کی بنیاد بھی رکھ دی ہے تو کیا حکومت کو ایسی بات کرنی چاہئے ہم نے آپ کو جو ڈیٹا دیا ہے یہ وہ ڈیٹا ہے جو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ہمیں ترسیل ہوا ہے کہ یہ پیسہ ہے جو  پاکستانی شہریوں کاہے یا وہ اکاؤنٹس جن کا سراغ لگایا گیا ہے اور مستند ثبوتوں کے ہمراہ وہ پڑا ہوا ہے۔

کل قومی اسمبلی میں جو شخص سوال کررہا تھا اس نے پٹرول پمپ پر قبضہ کیا ہوا تھا اس سے پٹرول پمپ بھی واگزار کرایا گیا ہے اصل مسئلہ شہزاد اکبر کا ہے جس کے آنے کے بعد چوریاں پکڑی جارہی ہیں 190 ملین پاؤنڈ ہیں جس میں سے140 ملین پاؤنڈ آچکے ہیں اور وہ نیشنل بینک اکاؤنٹ کے جمع ہوچکے ہیں اور باقی 50 ملین کا گھر فروخت ہو گا اور اس کے پیسے بھی اسی اکاؤنٹ میں آئیں گے۔ 

2017ء کا ایک قانون ہے جس کے اندر سسپشن کے اوپرپیسہ صرف منجمد ہوتا ہے جو دوسرا سلسلہ ہے جو ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر ایک علیحدہ پروسیجر ہے علیحدہ قانون ہے جو سسپشن پر ہوتا ہے یہ سسپشن تب تھی جب ایک تحقیقات پاکستان میں چل رہی تھی جب سپریم کورٹ میں سیٹلمنٹ ہو گئی اس کے بعد وہ سسپشن ختم ہوجاتی ہے۔

تازہ ترین