• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (طارق بٹ) سپریم کورٹ نے مشہور آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے ملزم بلال قدوائی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی طویل اور مسلسل قید کو ناقابل جواز قرار دیا ہے۔ جب فیصلہ 3 دسمبر کو دیا گیا تو اس کی اطلاع نہیں ملی۔ 

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آبزرویشن دی کہ فاضل وکیل کو سننے اور ریکارڈ دیکھنے کے بعد ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ استغاثہ کے مطابق درخواست گزار نے چند فزیبلٹی اسٹڈیز تیار کی تھیں اور بولی لگانے والی دستاویز بھی تیار کی تھی جنہیں پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ ، 2014 کی خلاف ورزی کرکے تیار کیا گیا تھا۔ 

جہاں تک آشیانہ اقبال پراجیکٹ کا تعلق ہے تو درخواست گزار محض ایک پراجیکٹ کوآرڈینیٹر تھا اور ان کا کسی بھی مخصوص جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ بظاہر درخواست گزار اس پراجیکٹ کے خیالی مرحلے میں شامل تھے۔ 

انہیں اس پراجیکٹ کو شروع کرنے میں مل کر کام کرنا تھا اور انہوں نے کوئی بھی دستاویز تیار نہیں کی جسے واقعتاً مذکورہ پراجیکٹ کے مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اس کیس میں مرکزی ملزم نہیں اور ان کے خلاف اپنے شریک ملزم کی مدد کے حوالے سے صرف الزامات لگائے گئے ہیں۔ نیب نے قدوائی پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا۔ 

اس مرحلے پر تحقیقات کی غرض سے درخواست گزار کی جسمانی حراست کی مزید کوئی ضرورت نہیں۔ جون 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے قدوائی کی ضمانت مسترد کردی تھی۔ انہیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے 20 ماہ بعد آزادی ملی ہے۔ 

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے گریجویٹ اور شکاگو یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز قدوائی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق کنسلٹنٹ اکنامسٹ ہیں جنہوں نے آشیانہ اسکیم پر لاگو ہونے والی پرائیوٹ پبلک پارٹنرشپ (پی پی پی) کے رہائشی ماڈل کے لیے فزیبلٹی اور بولیوں کی دستاویزات تیار کی تھیں۔ بہت ہی کم لوگ قدوائی کے خوفناک تجربے کے بارے میں جانتے ہیں جو گزشتہ 20 ماہ سلاخوں کے پیچھے رہے۔ ان کے چھوٹے بچے اور بیوی کی تکلیف صرف اس وقت سامنے آئی جب عدالت عظمیٰ نے ان کی قید کو ناقابل جواز قرار دیا۔ 

شکاگو یونیورسٹی میں قدوائی کو دو نوبیل انعام یافتہ افراد کے طالب علم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایسے گریجویٹس امریکا میں بڑی تنخواہوں کے حق دار بنتے ہیں۔ ان کا خاندان امریکا میں رہائش پذیر ہے لیکن انہوں نے پاکستان واپسی کا انتخاب اس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ سوسائٹی میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور ملک نے جو ان پر سرمایہ کاری کی ہے اسے واپس کرنے میں مدد کریں گے۔ 

2009 میں امریکا سے واپسی پر انہوں نے کئی سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ کام کیا۔ ان کا واحد ذریعہ آمدنی ان کی تنخواہ تھی۔ کسی بھی تنخواہ دار فرد کی طرح انہوں نے گھر، پلاٹس یا گاڑیوں جیسی کوئی بھی دولت اکٹھی نہیں کی اور لاہور میں کرائے کی جگہ پر رہے۔ 

2014 میں قدوائی ایل ڈی اے کے اسٹریٹجک پالیسی یونٹ میں بطور معاشی ماہر شامل ہوگئے جسے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ نے تشکیل دیا تھا۔ 

وہ چیمہ کی جانب سے تیار کئے گئے شہری ترقی سے متعلق بہت سے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی کاموں میں مصروف رہے۔ اس طرح کا ایک کام پرائیوٹ پبلک پارٹنرشپ کے ذریعے پبلک انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنے کیلئے نجی فنانس کے استعمال کا ماڈل تیار کرنا تھا۔ 

ایل ڈی اے چیف نے بھی انہیں کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے بڑے پیمانے پر رہائش تیار کرنے کے لئے پائیدار حکمت عملی تلاش کرنے کا کام بھی سونپا ۔ مقصد ایک ایسا ہاؤسنگ یونٹ تیار کرنا تھا جو ماہانہ 10 ہزار روپے کی قسطوں پر دستیاب ہوتا۔ 

قدوائی کا بطور کنسلٹنٹ کردار پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) بورڈ اور پی پی پی وزارتی اسٹیئرنگ کمیٹی جیسے باضابطہ سرکاری فورمز کے ذریعے منظوری کیلئے پراجیکٹ کی دستاویزات اور فزیبلٹیز تیار کرنا تھا۔ ان کی تیار کردہ دستاویزات کو کارپوریٹ کی اعلیٰ قانونی کمپنیوں نے کلیئر اور جانچ لیا تھا۔ 

تاہم نیب کے ایک ریٹائرڈ افسر نے بتایا کہ ہم قانون کے مطابق کام کرتے ہیں ہمارے لئے کوئی پسندیدہ نہیں، ایمانداری اور معلومات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے، ہم کسی کی ضمانت میں زبردستی رکاوٹ نہیں ڈالتے، اگر ایسا کریں تو کسی کی ضمانت کی نوبت نہ آئے ۔

تازہ ترین