اسلام آباد ( انصار عباسی) قومی احتساب بیورو ( نیب ) کے خلاف عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کے بعد بیورو کریٹس کی ضمانتوں کے امکانات روشن ہوگئے ہیں، جبکہ سیاست دانوں کو خصوصاً اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے۔ عدالتوں نے اختیارات کے متنازع استعمال پر نیب سے سنجیدگی کے ساتھ استفسار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس دوران یہ امید ہو چلی ہے کہ موجودہ اور ریٹائرڈ سینئر بیورو کریٹس جو کسی سزا کے بغیر مہینوں، برسوں سے جیلوں میں پڑے سٹر رہے ہیں، انہیں انصاف ملنا شروع ہو جائے گا۔
بیورو کریسی میں ذرائع کے مطابق ماسوائے چند تمام سیاست دانوں کو نیب اقدامات کے خلاف عدالتی عمل سے ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے، لیکن زیادہ تر بیورو کریٹس ان ہی مقدمات میں اب بھی قید بھگت رہے ہیں، نواز شریف کی حتیٰ کہ دو سزائوں میں ضمانت ہوگئی۔
شہباز شریف کرپشن کے الزام پر دو مقدمات میں گرفتار ہوئے لیکن ان میں ان کی ضمانت ہوگئی۔ مریم نواز کو دوبارہ جیل ہوئی، پہلی بار انہیں ایون فیلڈ کیس میں سزا ہوئی اور بعدازں نیب کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے دوران انہیں جیل جانا پڑا، تاہم دونوں مقدمات میں ان کی ضمانت ہوگئی۔
ان کے علاوہ دیگر جیسے آصف علی ز رداری، عبدالعلیم خان، سبطین خان، آغا سراج درانی، میاں نعمان وغیرہ جو مختلف کرپشن کے مقدمات میں نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ان کی بھی ضمانتیں منظور ہوگئیں، تاہم فواد حسن فواد، احمد چیمہ، وسیم اجمل، سلیمان غنی اور رائو منظر حیات جو تمام سینئر ڈی ایم جی افسران ہیں، وہ آئندہ دو ماہ میں پس زنداں دو سال کی مدت مکمل کر لیں گے۔
ایک سینئر افسر کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بیورو کریٹس عام طور پر قانونی معاونت کے بھاری اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، جو نیب مقدمات میں کروڑوں سے تجاوز کر جاتے ہیں، سیاست دانوں کے برخلاف بیورو کریٹس کو وسیع تر سماجی اور سیاسی حمایت بھی حاصل نہیں ہوتی، ایسے بھی مقدمات ہیں جن میں سیاست دانوں کی ضمانت ہوگئی لیکن بیورو کریٹس ایک جیسے مقدمے میں شریک الزام ہونے کے باوجود ضمانت سے محروم ہیں۔
اس کی وجہ قانونی معاونت کے مختلف معیار ہیں کیونکہ سیاستدانوں کو میڈیا اور سیاست میں زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ، کئی مقدمات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے جیسے آشیانہ کیس میں عدالتوں نے مرکزی مقدمات ختم کر دیئے لیکن کیس میں ملوث ایک افسر کو ظاہر آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں جکڑ لیا جو کہ بڑا مبہم الزام ہے جس کے تحت پورے خاندان کے اثاثوں کو بے نامی اثاثوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے پھر افسر کو اپنی صفائی دینا ہوتی ہے ورنہ اسے طویل عدالتی کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
بیورو کریٹس نے وضاحت کی کہ نیب ملزم کو قانونی ضمانت کے حق سے محروم رکھتا ہے جو قانون اور ضابطہ فوجداری کے تحت کرمنل مقدمات میں ملزم کا حق ہے۔
مقدمہ سال بھر میں مکمل نہ ہونے کی صورت عدالتوں پر ضمانت منظور کرنا لازم ہے لیکن نیب کا کالا قانون ملزمان کو اس سہولت سے محروم کر دیتا ہے ، تاہم اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ چند فیصلوں کے بعد توقع ہے بیورو کریٹس کسی سزا کے بغیر قید نہیں بھگت رہے ہوں گے۔
ایک ایسا ہی فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایس او کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر کی ایل این جی ٹرمینل کیس میں ضمانت منظور کرکے دیا۔ اسی کیس میں نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا تھا کہ نیب قوانین میں ضمانت کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس۔ 1999 کے تحت گرفتاری کے کھلے اختیارات ہیں اور نہ یکطرفہ طور پر میکانیکی طور پر بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔
اس سے درخواست گزار ضمانت کے حق سے محروم نہیں ہو جاتا۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ آرٹیکل۔14 میں یہ بات مضمر ہے کہ کیس کے حقائق اور حالات پر منحصر صوابدیدی گرفتاری بیرونی وجوہ سے ملزم پر تشدد کا باعث ہو سکتی ہے۔
تاہم نیب کے ایک ریٹائرڈ افسر نے بتایا کہ ہم قانون کے مطابق کام کرتے ہیں ہمارے لئے کوئی پسندیدہ نہیں، ایمانداری اور معلومات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے، ہم کسی کی ضمانت میں زبردستی رکاوٹ نہیں ڈالتے، اگر ایسا کریں تو کسی کی ضمانت کی نوبت نہ آئے۔