• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کم وزن والےنومولود جوانی میں بانچھ پن کا شکار ہوسکتے ہیں

کوپن ہیگن( جنگ نیوز) ایسے مرد جن کا وزن پیدائش کے وقت کم ہوتا ہے انہیں جوانی میں بانجھ پن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ انکشاف ڈنمارک میں ہونے والی ایک میڈیکل ریسرچ میں کیا گیا ۔ ریسرچ کےدوران ماہرین نے 1984 سے 1987 میں پیدا ہونے والے ساڑھے 5 ہزار سے زائد مردوں اور 5 ہزار 3 سو سے زائد خواتین کا جائزہ 2017 تک لیا جن کی اوسط عمر 32 سال تھی ۔ ریسرچرز نے پتہ لگایا کہ جن مردوں کا وزن پیدائش کے وقت 3 کلو سے کم ہوتا ہے بالغ ہونے کے بعد ان میں بانجھ پن کا خطرہ 55 فیصد ان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جن کا پیدائشی وزن مناسب ہوتا ہے۔ریسرچرز نے کہا کہ 5.7 فیصد مردوں کو بانجھ پن کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے تاہم کم پیدائشی وزن والے افراد میں یہ شرح 8.3 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ تاہم خواتین کے پیدائشی وزن اور بانجھ پن کے درمیان کوئی تعلق دریافت نہیں ہوا ۔ آراہوس یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کی قائد اینی تھورسٹیڈ کا کہنا تھا کہ ماں کے پیٹ میں بچوں کی جسمانی نشوونما متاثر ہونا مستقبل میں سپرم بننے اور تولیدی صحت کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ دوران حمل ماں کی صحت اور طرز زندگی دونوں بچے کی نشو و نما اور دیگر جسمانی افعال پر اثرانداز ہونے والے عوامل ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اگر ماں تمباکو نوشی کرتی ہے تو اس کا اثر پیٹ میں موجود بچے بھی مرتب ہوتا ہے۔ ماہرین کے بقول نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کئی بار ہمیں بعد کی زندگی کے مسائل کیلئے ابتدائی زندگی کو دیکھنا چاہیے ۔ حمل کی پوری مدت کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کا وزن 2.49 کلوگرام سے 4.4 کلوگرام تک ہوتا ہے جو بچے 3 کلو گرام سے کم وزن کے حامل ہوتے ہیں، انہیں کم وزن کا قرار دیا جاتا ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحقیق میں ماں کے پیٹ میں نشو و نما متاثر ہونے اور بعد کی زندگی میں تولیدی صحت کے مسائل میں 2 سے 3 گنا خطرے کے درمیان تعلق دریافت کیا گیا تھا جو بانجھ پن کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اس نئی تحقیق میں محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ پیدائش وزن اور تولیدی صحت کیلئے مسائل میں تعلق موجود ہے جو بعد کی زندگی میں بانجھ پن کا خطرہ بڑھاتے ہیں ۔ ریسرچرز نے پیدائشی وزن اور حمل کی عمر کی معلومات برتھ سرٹیفکیٹ سے حاصل کی جبکہ بانجھ پن کی تشخیص اور علاج کا ڈیٹا ڈینش نیشنل پیشنٹ رجسٹری اور دیگر اداروں سے حاصل کیا۔ ان تمام افراد کی ماؤں سے سوالنامے دوران حمل بھروائے گئے تھے اور ان سے عمر، جسمانی وزن، تمباکو نوشی، سماجی حیثیت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی۔ محققین کا کہنا تھا کہ وہ مزید 10 سال بعد ان رضاکاروں کی صحت کی صورت حال کا جائزہ لیں گے۔ اس ریسرچ کے نتائج طبی جریدے جرنل ہیومین ری پروڈکشن میں شائع ہوئے۔
تازہ ترین