• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیکسپیئر کے کھیل میں اپنے محبوب انطونی سے عارضی جدائی میں بے قرار کلوپیٹرا روم سے آنے والے خبر رسان کو دیکھ کر پکار اٹھتی ہے ”میرے کان مدت سے ویران ہیں، ان میں کسی اچھی خبر کا رس ڈالو“۔ اس التماس کا جواب لسان الغیب حافظ شیرازی کے لفظوں میں یوں ہو گا ’مطرب بگو کہ کار جہاں شد بہ کام ما‘۔ مغنی کوئی گیت چھیڑو کہ مرا نصیب کھلنے کے دن آ گئے۔ ہمارے تناظر میں یہ اچھی خبر وہ اصحاب لے کر آئے ہیں جنہوں نے گزشتہ اتوار اسلام آباد میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی سے ملاقات کی۔ بتایا گیا ہے کہ جنرل صاحب نے اس ملاقات میں واضح طور پر اعلان کیا کہ ”اپنے نمائندوں کا انتخاب عوام کا حق اور اختیار ہے، فوج کی آئینی ذمہ داری ہے کہ جو بھی حکومت بنے اس کا ساتھ دے“۔ مبارک ہے اخبار کا وہ ورق جس پر یہ خبر چھپی، خوشا وہ روشنائی جس سے یہ مژدہ لکھا گیا۔ اس صبح کے انتظار میں یعقوب کی آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں۔ چھ دہائیوں سے الف لیلیٰ کا ابوالحسن اس دیار کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرتا تھا کہ کوئی اس دن کی خبر دے۔ شالامار میں میلہ سجے اور ہم ووٹ سے پاکستان سنوارنے نکلیں۔
صاحب بس ایک بار، محض ایک بار ہم نے قرین قیاس سطح پر شفاف انتخاب کے ذریعے حکومت قائم کر لی تو اس ملک میں جمہور کی حکمرانی کا تصور ایسا مضبوط ہو جائے گا کہ کسی طالع آزما کو جرا ¿ت نہیں ہو گی کہ کسی ممکنہ اولوالعزم کے جذبہ ¿ کشورآرائی کو چتاﺅنی دے۔ تسلیم کہ ہماری سیاسی قیادت بے داغ نہیں لیکن جمہوریت کے تعاقب میں لپکتے سائے سے نجات ملے تو جمہوری قیادت کی بامعنی جواب دہی کی صورت نکلے۔ یہاں تو یہ عالم رہا کہ مسلم لیگی حکومت کی چیرہ دستیوں پر کسمسائے تو ایوب خاں آ دھمکے۔ بھٹو صاحب کے تحکمانہ رنگِ سیاست کی مزاحمت کرنا چاہی تو ضیاءالحق آ براجے۔ نواز شریف کی پندرہویں آئینی ترمیم کے خلاف نکلے تو پرویز مشرف کی بند گلی میں جا بھٹکے۔ مرے پر سو درّے یہ کہ عدلیہ ہر غاصب کی تائید پر کمر بستہ۔ صحافت کے گھسیٹے خان آمریت کی دھن پر نت نیا راگ الاپنے کے لئے پُرجوش۔ اس کشاکش میں ریاست اور معاشرت کی کشتی مشکلات کے بھنور میں جا پھنسے تو اس کا الزام سیاست دانوں کی نااہلی اور بدعنوانی پر رکھئے۔ ادھر سیاست دان سے ناکردہ کاری کا گلہ کیجئے تو جواب ملتا ہے صاحب انتقالِ اقتدار ہوا ہی نہیں، شراکتِ اقتدار تھی اور وہ بھی ایسے زور آور کے ساتھ جو مارے اور رونے نہ دے۔ تو بھائی اب گن جایئے کہ حالیہ عرصے میں کیا تبدیلیاں آئیں۔ سیاست دانوں نے مفاہمت کی پالیسی اپنا کر دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا۔ مفاہمت کا مفہوم وہ نہیں جو کچھ بزرجمہروںکی زبان میں ’لوٹ مار کے لئے گٹھ جوڑ‘ ہے۔ سیاست اقتدار کے لئے مقابلے کا کھیل ہے اور اس کھیل کے ضابطے آئین میں بیان کئے گئے ہیں۔ مفاہمت کا مطلب ہے آئین کی پاسداری پر اتفاق رائے۔ ذرائع ابلاغ میں پھیلاﺅ کے بعد اب صحافت مسابقت کی ایسی دوڑ میں ہے کہ کم ہی صحافی کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت کرنے کا بوتا رکھتے ہیں۔ 2009ءمیں مکمل بحالی کے بعد سے عدلیہ نے آئین کی بالادستی کے بارے میں ایسے تاریخ ساز فیصلے دیئے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کا اعادہ قریب قریب ناممکن نظر آتا ہے۔ فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت ہماری تاریخ میں ایک مسلسل آزار کی طرح ہمارے ساتھ چلی ہے۔ اب بطور ایک ادارے کے فوج کی اعلیٰ ترین قیادت کی طرف سے سیاست میں مداخلت سے دست کشی کا اعلان گویا جمہوریت کے بارے میں قومی اتفاق رائے کی طرف ایک اور فیصلہ کن قدم ہے۔ قومی قیادت میں جمہوری طرز حکمرانی پر اتفاق پاکستان کی ترقی اور استحکام کا سندیسہ ہے۔ یہاں ادارے مضبوط ہوں گے، معاشی ترقی کی راہیں کھلیں گی، رواداری کا بول بالا ہو گا تو انتہا پسندی کی جڑ کٹ جائے گی، جمہوری ثقافت کے فروغ کے لئے شہری مساوات، شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق جیسی اقدار کا احترام کرنا پڑے گا۔ سیاست دانوں کو مقررہ آئینی میعاد کے بعد عوامی جواب دہی کا یقین ہو گا تو بدعنوانی کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ ملک کے اندر عوام کی قوت بڑھے گی تو اقوام عالم میں پاکستان کا احترام بحال ہو گا اور یہ سب راتوں رات نہیں ہو گا۔ جمہوریت کی صبر طلب کھیتی پر برگ و بار آنے میں کچھ مدت لگتا ہے۔
ایسا سوچنا سادہ لوحی ہو گی کہ ایسے شاندار امکانات کے راستے میں کیا اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ عشروں پر محیط دیدہ اور نادیدہ غیر جمہوری بالادستی کے نتیجے میں پاکستان میں ایسی سوچ نے فروغ پایا ہے جو تنقیدی شعور سے عاری ہونے کے باعث ریاست کے ادارہ جاتی خدوخال سمجھتی ہے اور نہ سیاست کی حرکیات سے آشنا ہے۔ ہماری آبادی میں بارہ کروڑ سے زیادہ شہری ایسے ہیں جو 1980ءکے بعد پیدا ہوئے۔ یہ نسل سیاست میں تدبر اور تحمل جیسی اقدار کی اہمیت کیسے سمجھے کیونکہ انہوں نے سیاست کو ایک گالی کے طور پر سنا اور سمجھا ہے۔یہ ان بچوں کا قصور نہیں، ہماری نسل کی کوتاہی ہے جس سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز نے رواں ہفتے ایک انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ ”خون چوسنے والے آئین کااحترام نہیں کرتا“۔ آئین کے خلاف چوری چھپے بدگوئی کرنے والوں کی کمی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاہد اورکزئی نے سپریم کورٹ کے سامنے آئین کا نسخہ زمین پر پٹخ دیا تھا۔ القاعدہ کے ایمن الظواہری نے تو ”سپیدہ سحر اور چراغ “کے نام سے دستور پاکستان کے خلاف ایک رسالہ لکھ مارا تھا لیکن پہلی دفعہ مملکت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے والے کسی شخص نے آئین کے خلاف سرعام زبان درازی کی ہے۔ جنرل موصوف نے حال ہی میں ”یہ خاموشی کب تک“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں زبان و بیان اور تجزئیے کا معیار ایسا پست ہے کہ بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ اگر کہنے کو یہی کچھ تھا تو خاموشی قائم رکھنے ہی میں بہتری تھی۔ جنرل شاہد عزیز نے12اکتوبر 1999ءکو منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر پرویز مشرف کو برسراقتدار لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ قوم کے خلاف اس بدترین جرم پر کسی ندامت کے بغیر جنرل صاحب لکھتے ہیں ” اس تمام عرصے میں ذرا خیال نہ آیا کہ میں کوئی غلط قدم اٹھانے لگا ہوں.... میرے لئے بہت فخر کی بات تھی کہ میں اس تبدیلی کا حصہ ہوں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس کام کے لئے چنااور نہایت انہماک سے تیاریوں میں لگ گیا“۔
1954 ءمیں جنرل ایوب خان نے لندن میں بیٹھ کر بزعم خود پاکستان کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ نصف صدی بعد جنرل شاہد عزیز نے یہ روایت دہرائی۔ ”شروع کے دنوں میں بہت جوش وو لولہ تھا ۔ میں نے فوراً ہی اس پہلو پر سوچ بچار شروع کر دیا اور کئی دن کی محنت کے بعد17اکتوبر تک تجاویز تیار کر کے18 تاریخ کی صبح جنرل مشرف صاحب کو بھجوا دیں۔ 15 صفحات پر مشتمل یہ تجاویز میں نے خود ہی ٹائپ کیں“۔ سبحان اللہ! آئین شکنی اور شخصی حکمرانی کا یہ ٹھاٹھیں مارتا جذبہ کچھ ہی دنوں میں ٹھنڈا کیوں ہو گیا۔ جنرل موصوف نے اس کا جواب بھی خود ہی دیا ہے ”حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد تمام معاملات سے مجھے باہر رکھا جاتا جو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ آخر مجھے ہی کیوں اس اعتبار کے دائرے سے باہر رکھا جاتا ہے“۔اس سے سمجھ آتا ہے کہ پرویز مشرف کی ذاتی مذمت سے قطع نظر بنیادی جرم یعنی آئین شکنی کے بارے میں یہ کتاب کیوں خاموش ہے۔ عذر گناہ کا انداز ملاحظہ ہو ”پاکستان کے آئین پر میں نے بھی قسم اٹھائی تھی مگر صرف میں نے ہی نہیں تمام حکمرانوں اور ججوں نے بھی تو قسم اٹھائی تھی۔ ان میں سے تو کسی کو آئین کا کوئی پاس نہ تھا۔ .... کیا صرف میں ہی مجبور تھا کہ آئین کا پاس کرتا۔ ....یہ بدبودار نظام جمہوریت کا ایک تماشہ ہے .... کچھ کہو تو سب ایسے کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے آئین کی یہ کتاب آسمان سے اتری ہوئی کوئی پاک چیز ہو“۔ جمہوریت کے سفر میں ایک اہم جدوجہد ابھی باقی ہے۔ ہمیں سیاسی عمل کے ذریعے اس ذہنیت کا انسداد کرنا ہوگا جو خدا کے کلام اور ملکی دستور میں فرق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس بیمار قوت شامہ کا علاج ابھی باقی ہے جو آمریت کی بدبو اور جمہوریت کی خوشبو میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔
تازہ ترین