• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مسلم مخالف قانون کیخلاف بھارت میں پُرتشدد مظاہرے جاری، مزید 6 ہلاکتیں

مسلم مخالف قانون کیخلاف بھارت میں پُرتشدد مظاہرے جاری


نئی دہلی (جنگ نیوز)بھارت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی۔

دوسری طرف بھارت میں رواں ہفتے بنائے گئے شہریت قانون کے خلاف دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نزدیک پُر تشدد احتجاج متعدد سرکاری بسیں نذر آتش کر دی گئیں۔بھارتی فورسز نے یونیورسٹی طلبہ پر بیہمانہ تشد د کیا جبکہ خواتین طلبہ ساتھی طلبہ کو فورسز کے تشدد سے بچاتی رہیں، جامعہ اور مختلف بھارتی علاقوں کے حالات کشیدہ رہے اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق بھارت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

اے ایف پی کے مطابق ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہورہے ہیں جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گوہاٹی میں اتوار کو بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور آسام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 4 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک شہری نذر آتش کی گئی دکان میں سورہا تھا اور اسی دوران ہلاک ہوگیا جبکہ چھٹے شہری کی ہلاکت احتجاج کے دوران تشدد کے باعث ہوئی۔

دریں اثنا بھارت میں رواں ہفتے بنائے گئے ʼشہریت قانون کے خلاف دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نزدیک پُر تشدد احتجاج متعدد سرکاری بسیں نذر آتش کر دی گئیں۔شہریت قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس کے قریب کے علاقوں پاش کالونی اور نیو فرینڈس کالونی میں ہوئے جبکہ ایک مظاہرہ یونیورسٹی کی دوسری جانب بھی کیا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین نے سرکاری بسوں اور عام لوگوں کی گاڑیوں پر پتھراو کیا جس سے ان کو نقصان پہنچا۔اس واقعے کے بعد دہلی پولیس کے اہلکار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں داخل ہوئے۔ 

اطلاعات کے مطابق انہوں نے لائبریری میں موجود طلبہ کے خلاف کارروائی شروع کر دی جبکہ متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لیا گیا۔ اس دوران کئی طلبہ زخمی بھی ہوئے۔

دوسری جانب طلبہ کا کہنا تھا کہ پولیس نے جامعہ کیمپس میں داخل ہو کر پر امن مظاہرے کے دوران لاٹھی چارج کیا جبکہ آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

علاوہ ازیں پولیس نے جامعہ نگر کے علاقے کا بھی محاصرہ کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نجمہ اختر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان مظاہروں میں یونیورسٹی کے طلبہ شامل نہیں تھے۔ انہوں نے آج کسی مظاہرے کی کال نہیں دی تھی۔

پروفیسر ڈاکٹر نجمہ اختر نے یہ بھی کہا کہ انہیں طلبہ کے خلاف پولیس کارروائی کی اطلاع ملی ہے۔ انہوں نے پولیس سے درخواست کی کہ چونکہ طلبہ پرتشدد مظاہرے میں شامل نہیں تھے اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

واضح رہے کہ جامعہ ملیہ کی انتظامیہ نے 14 دسمبر کو ہی پانچ جنوری تک کی تعطیل کا اعلان کر دیا تھا۔ طلبہ کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس نے کارروائی کی۔ 

اس دوران پولیس کے 6 جوان زخمی ہوئے تاہم اب حالات قابو میں ہیں۔ٹیچرز ایسوسی ایشن اور طلبہ کی جانب سے تشدد کی مذمت کی گئی ہے۔

دہلی فائر سروس کے مطابق طلبہ نے آگ بجھانے والی گاڑیوں کا راستہ بند کیا اور ایک گاڑی پر پتھراو بھی کیا جس میں دو فائرمین زخمی ہوئے۔دہلی ٹریفک پولیس کے مطابق ہنگامہ آرائی کے باعث آس پاس کی سڑکیں بند کر دی گئی تھیں۔

مظاہروں کے باعث امریکا اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کو شمال مشرقی بھارتی علاقوں کی سیاحت سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

تازہ ترین