• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے تاجکستان کو بجلی ایکسپورٹ کرنے کیلئے مذاکرات شروع

اسلام آباد ( خالد مصطفیٰ) پاکستان نے وسط ایشیائی ریاستوں( سی اے ایس ایس) کوجن میں تاجکستان اور کرغزستان شامل ہیں، بجلی ایکسپورٹ کرنے کے لیے مذکرات کا آغاز کر دیا ہے اس کے لیے کھلی رسائی کی کلاز کوبروئے کار لا یا جار ہا ہے، جو پہلے ہی CASA-1000 منصوبے کے ماسٹر پلان کا حصہ ہے۔

پاور ڈویژن کے ایک متعلقہ افسر کے مطابق پاکستان کی طرف سے نیشنل ٹرانسمیشن ڈسپیچ کمپنی ( این ٹی ڈی سی) نے ہفتہ رفتہ کے دوران دبئی میں تاجکستان سے بجلی کی ایکسپورٹ کے بارے میں فیصلہ کن مذاکرات کیے۔ 

اس سے قبل پاکستان نے تاجکستان کو باقاعدہ طور پر کہا تھا کہ وہ کھلی رسائی کی کلاز کے تحت CASA-1000 منصوبے کے پلان کے تحت دو طرفہ بجلی کی ایکس پورٹ کا عمل شروع کرے، پاکستان موجودہ معاہدے کے تحت اس بات کا پابند ہے کہ جب معاہدہ پر عملدرآمد کاآغاز ہو تو وہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی روزانہ 9 .50 سینٹ فی یونٹ مئی سے اکتوبر کے عرصے میں امپورٹ کرے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر افغانستان میں کوئی تخریبی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا ازالہ پاکستان کرنے کا پابند بھی نہیں ہو گا، نئے منظر نامے میں پاکستان کے پاس اب اضافی بجلی موجود ہے وہ اسے سردیوں میں تاجکستان، کرغزستان اور افغانستان کو CASA-منصوبے کے ہی سٹرکچر کو بروئے کار لاتے ہوئے ایکسپورٹ کرنے کا خواہاں ہے۔ 

سرکاری حکام کے مطابق پاکستان اوپن کلاز کے تحت ان ممالک کو بجلی فراہم کرنا چا ہتا ہے جوموسم گرما میں CASA-1000 کے تحت پاکستان کو بجلی فراہم کریں گے یہ منصوبہ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا، اس میں ٹرانسمیشن لائنوں کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور تاجکستان میں کنورٹر سٹیشنزبھی تعمیر کیے جائیں گے۔ 

پاکستان میں یہ نوشہرہ کے قریب تعمیر کیا جا ئے گا جہاں کنورٹر سٹیشن کی تعمیر کے لیے زمین خریدی جا ئے گی ، جب حکام سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا تاجکستان سے بجلی کی درآمد کی کوئی عقلی دلیل بنتی ہے، اس لیے کہ پاکستان نے اپنی پن بجلی کی پیداوارکو نو ہزار میگا واٹ تک بڑھا دیا ہے، مزید کئی ایک ہائیڈرو منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں، ان کے مکمل ہونے سے پاکستان کی بجلی کی پیداوار 36000ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہوجائے گی، یوں پاکستان کے پاس اضافی بجلی موجود ہوگی۔

سرکاری افسر نے بتایا کہ پاکستان جس وقت تاجکستان اور دیگر ریاستوں کے ساتھ CASA-1000 کا حصہ بنا تھا اس وقت ملک میں بجلی کے بحران تھا۔ 

اس منصونے کا ڈرافٹ ورلڈ بینک نے تیار کیا اور منصوبے میں شامل تمام ممالک نے اس پر دستخط کیے، پاکستان یک طرفہ طور پر اس منصوبے سے الگ نہیں ہو سکتا کیوں کہ ساورن گانٹیز اس میں شامل ہیں، اگر کوئی متاثرہ ملک بین الاقوامی ثالثی کے لیے قدم اٹھاتا ہے تو پاکستان کو ڈالروں میں جرمانہ بھرنا پڑے گا یہ قیمت ہمارا ملک برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

تازہ ترین