• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں 12دسمبرکو ہونے والے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی بھاری اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی۔ اسے 524نشستوں پر مشتمل دارالعوام (ایوانِ زیریں) میں 365نشستیں ملیں ، جسے کشیدہ سیاسی ماحول میں ایک غیر معمولی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیز، 1987ء کے بعد پہلی مرتبہ کسی جماعت نے اتنے بھاری مارجن سے کام یابی حاصل کی۔ دوسری جانب ٹوری پارٹی کی حریف جماعت، لیبر پارٹی 203نشستوں پر کام یاب ہوئی۔ 

فاتح پارٹی کے قائد اور وزیرِ اعظم، بورس جانسن نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ ’’ہم ایک عظیم جمہوریت ہیں۔ ہمیں بریگزٹ پر عمل درآمد کے لیے مینڈیٹ مل گیا ہے اور ہم اگلے ماہ تک برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے۔‘‘ دوسری جانب قائدِ حزبِ اختلاف اور لیبر پارٹی کے سرخیل، جیرمی کوربائن نے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں، اپنی انتخابی مُہم میں برطانوی وزیرِ اعظم نے صرف برطانیہ کی یورپی یونین سے فوری علیحدگی ہی کو اپنا مطمحِ نظر بنایا اور انتخابات میں ووٹرز نے ان کے اس ایجنڈے سے اتفاق کیا۔ واضح رہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد گزشتہ چار برس سے برطانوی قوم ایک مخمصے کا شکار تھی، جس نے اس پر ایک جمود سا طاری کر دیا تھا۔ 

تاہم، کنزرویٹیو پارٹی کو بھاری اکثریت دِلوا کر برطانوی عوام نے یہ جمود توڑنے کی راہ ہم وار کر دی۔ گرچہ لیبر پارٹی نے اپنی انتخابی مُہم میں اقتصادی مسائل پر بھی زور دیا تھا، لیکن نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ برطانوی ووٹرز ٹوریز کی معاشی حکمتِ عملی سے مطمئن ہیں اور پھر انہوں نے کنزرویٹیو پارٹی پر اعتماد ظاہر کر کے برطانیہ اور امریکا کے دیرینہ تعلقات کی حمایت بھی کر دی۔ واضح رہے کہ بورس جانسن یورپ کے مقابلے میں امریکا سے قریبی تعلقات کے حامی ہیں اور امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ بھی برطانوی وزیرِ اعظم کی حمایت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنے تہنیتی پیغام میں مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑے تجارتی معاہدے کا یقین دلایا۔

برطانوی انتخابات سے متعلق اکثر ناقدین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ انتخابات سے قبل ان کا کہنا تھا کہ اگر لیبر پارٹی جیت نہ سکی، تو کم از کم بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں ضرور کام یاب ہو جائے گی۔ یوں ایک معلّق پارلیمان وجود میں آئے گا اور بورس جانسن کو اپنے پیش رو کی طرح اتحادی حکومت بنانی پڑے گی، جس کے سبب بریگزٹ سمیت دیگر اہم فیصلے چیلنج بن جائیں گے۔ تاہم، یہ سارے اندازے، قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور برطانوی عوام نے اپنے وزیرِ اعظم کو تمام اہم فیصلے کرنے کا اختیار سونپ دیا۔ ان انتخابات میں لیبر پارٹی نے گزشتہ تین عشروں کے دوران سب سے کم نشستیں حاصل کیں اور اس کا سبب جیرمی کوربائن کی غیر مؤثر قیادت کو قرار دیا جا رہا ہے۔ 

چُنائو میں لیبر پارٹی کو اپنے روایتی حلقوں میں بھی کنزرویٹیو پارٹی کے ہاتھوں ہزیمت اُٹھانا پڑی ۔ ٹوری پارٹی کو زیادہ تر نشستیں اُن علاقوں سے ملیں، جنہوں نے ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی نے بریگزٹ کے حوالے سے غیر واضح مؤقف اپنایا، جب کہ اس کے برعکس بورس جانسن اپنی پوری انتخابی مُہم میں جارحانہ انداز سے یورپ سے جلد از جلد علیحدگی کا دعویٰ کرتے رہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ تیزی سے ترقّی کرتے ہوئے اپنی عظمتِ رفتہ بحال کرنے میں کام یاب ہو جائے گا۔ 

بورس جانس کی جمود شکن کام یابی
انتخابات میں کام یابی کے بعد کنزرویٹیوپارٹی کے حامی جَشن منا رہے ہیں

کنزرویٹیو پارٹی کی فتح سے اس حقیقت کو مزید تقویّت ملتی ہے کہ مغرب میں قوم پرست رہنما تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ البتہ اسکاٹ لینڈ کے انتخابی نتائج بورس جانسن اور اُن کی جماعت کے لیے پریشان کُن ہیں۔ یہاں ایک مرتبہ پھر علیحدگی پسند جماعت، اسکاٹش نیشنل پارٹی نے کام یابی حاصل کی اور 54میں سے 48نشستیں اس کے حصّے میں آئیں۔ اس موقعے پر اسکاٹش نیشنل پارٹی کی لیڈر، نکول اسٹریجن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرنے سے قبل وزیرِ اعظم کو انہیں اعتماد میں لینا پڑے گا۔ اس بیان پر ناقدین کا کہنا ہے کہ آیندہ دو برس کے دوران اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی پر بھی ریفرنڈم ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ بورس جانسن نے اُس وقت قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھاکہ جب رواں برس اکتوبر میں برطانوی پارلیمان نے یورپی یونین سے علیحدگی کا معاہدہ منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نتیجتاً، قائدِ ایوان کے پاس عوام سے رجوع کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ بورس جانسن نے یورپی یونین کے رہنمائوں کو مذکورہ معاہدے پر متّفق کرنے کے لیے خاصی تگ دو کی، کیوں کہ یورپی یونین بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد سے برطانیہ سے خاصی نالاں ہے۔ جانسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاہدے کی صورت میں وہ تمام رُکاوٹیں دُور کر دیں کہ جن کی وجہ سے اُن کی پیش رَو، تھریسا مے کو مستعفی ہونا پڑا ۔ 

بورس جانس کی جمود شکن کام یابی
جیرمی کوربائن

ان رُکاوٹوں میں اسکاٹ لینڈ اور یورپی یونین کے کسٹمز قوانین سے متعلق وہ نکات بھی شامل تھے کہ جن کی وجہ سے بریگزٹ کے بعد خود مختار اسکاٹ لینڈ کی یورپی ممالک سے تجارت کا معاملہ طے نہیں پا رہا تھا۔ تاہم، اس ترمیم شُدہ معاہدے کو برطانوی پارلیمان نے پہلے سے بھی زیادہ بد تر قرار دے کر مسترد کر دیا اور خود ٹوری پارٹی یعنی حُکم راں جماعت کے اراکین نے بھی اپنے قائد کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کر دیا۔ 

یاد رہے کہ بریگزٹ کو ایک غیر معمولی قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ارکانِ پارلیمنٹ کو بِل کی حمایت یا مخالفت کی اجازت دی گئی تھی، چاہے اُن کی رائے پارٹی پالیسی کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ اسی رعایت نے پارٹی ڈسپلن کو پارہ پارہ کر دیا اور تھریسا مے سے لے کر بورس جانسن تک کو بار بار خجالت اُٹھانا پڑی، جسے حریف جماعتوں نے خُوب کیش کروایا۔ 

تاہم، اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد بورس جانسن نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اُن کی پیش رو نے بھی قبل از وقت انتخابات کروائے تھے، لیکن ان کے نتائج توقّعات کے برعکس نکلے اور ٹوری پارٹی اکثریت سے محروم ہو گئی، جب کہ اس کے برعکس لیبر پارٹی کی مقبولیت اور اُس کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد میں اضافہ ہوا اور قائدانہ صلاحیتوں سے عاری جیرمی کوربن وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ پارلیمان میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد تھریسا مے بریگزٹ سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکیں اور اُن کے جانشین بھی تمام تر جوش و جذبے کے باوجود یورپی یونین سے ہونے والا معاہدہ پارلیمان سے منظور نہ کروا سکے۔

اگر بورس جانسن قبل از وقت انتخابات کا اعلان نہ کرتے، تو 2022ء الیکشن ایئر تھا۔ یعنی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد وہ آیندہ ڈھائی برس میں اپنی اور کنزرویٹیو پارٹی کی پوزیشن مستحکم کر سکتے تھے۔ تاہم، بریگزٹ بِل بار بار مسترد ہونے کے بعد انہوں نے قبل از وقت انتخابات کروانے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا، جو دُرست ثابت ہوا اور اب وہ 2025ء تک وزیرِ اعظم رہیں گے۔ گزشتہ انتخابات کی طرح حالیہ الیکشن میں بھی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی بنیادی معاملہ تھا، جس پر مُلک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا مؤقف عوام کے سامنے پیش کیا۔ 

بورس جانسن کا کہنا تھا کہ اگر اُنہیں اکثریت ملی، تو 31جنوری تک بریگزٹ ہو جائے گا، بصورتِ دیگر وہ کسی معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے برطانیہ کا اخراج (ہارڈ بریگزٹ) کر لیں گے، جب کہ لیبر پارٹی کے رہنما، جیرمی کوربن نے اقتصادی مسائل کو بھی اپنے انتخابی ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ ایک سوشلسٹ ہونے کے ناتے اپنی خارجہ پالیسی بیان کرتے ہوئے جیرمی نے نہ صرف رُوس اور وینزویلا کے لیے ہم دردی کا اظہار کیا، بلکہ ایران سے متعلق مغربی ممالک کی حکمتِ عملی سے بھی اختلاف کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ برطانیہ کے دیرینہ حلیف، امریکا سے دُوری اختیار کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کے حریف کی کُھل کر حمایت کی۔ مزید برآں، لیبر پارٹی نے نیشنل ہیلتھ سروس میں، جسے گزشتہ کئی برسوں سے خسارے کا سامنا ہے، اصلاحات کا دعویٰ بھی کیا۔ 

یاد رہے کہ برطانیہ کی فلاحی ریاست کی حیثیت برقرار رکھنے کی ذمّے داری این ایچ ایس ہی ادا کرتا ہے۔ برطانوی شہریوں کو علاج کی مفت سہولتیں میسّر ہیں اور اسی باعث ہی برطانیہ دُنیا بھر کے افراد کے لیے کشش رکھتا ہے۔ تاہم، برطانوی ووٹرز نے بورس جانسن پر اعتماد کا اظہار کر کے بتا دیا کہ وہ اس وقت ان معاملات کو اہمیت نہیں دیتے اور جلد از جلد یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر کے قومی ترقّی کی رفتار تیز کرنا چاہتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ 2016ء کے انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کے قائد، ڈیوڈ کیمرون نے اپنے اقتصادی ایجنڈے کے تحت فتح حاصل کی تھی اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مُلک کو اقتصادی بحران سے نکالا۔ ٹوری پارٹی کی سابقہ کارکردگی دیکھتے ہوئے ہی عوام نے بورس جانسن کا انتخاب کیا، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کنزرویٹیو پارٹی ہی گزشتہ چار برس سے پائی جانے والی بے یقینی کے سبب ہونے والے اقتصادی نقصانات کا ازالہ کر سکتی ہے۔

برطانیہ میں انتخابات انتہائی کشیدہ ماحول میں ہوئے اور برطانوی ووٹرز کے لیے دو اہم رہنمائوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ایک ایسی کڑی آزمائش تھی کہ جس کا اس سے پہلے برطانوی باشندوں کو شاید ہی سامنا کرنا پڑا ہو۔ ماضی میں بورس جانسن لندن کے مقبول ترین میئر رہے اور ان کے دَور میں دارالحکومت نے یادگار ترقّی کی۔

نیز، تھریسا مے کی جگہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے نہایت کٹھن لمحات کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ اس موقعے پر انہیں ایک ایسی حکومت کی قیادت کرنا پڑی کہ جو غیر مقبول ہونے کے علاوہ قوّتِ فیصلہ سے محروم بھی تھی۔ انتخابات کے دوران برطانوی عوام کا دوسرا آپشن جیرمی کوربن تھے، جو حزبِ اختلاف کے سب سے غیر مقبول رہنما کے طور پر اُبھرے اور پھر انتخابی نتائج نے یہ بات سچ ثابت کر دی۔ 

نتیجتاً، انہوں نے لیبر پارٹی کی قیادت سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا۔ عمومی طور پر کنزرویٹیو کو سینٹر رائٹ ، جب کہ لیبر کو سینٹر لیفٹ پارٹی قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے نظریات میں معمولی فرق کی وجہ سے برطانوی ووٹرز کے لیے کسی ایک جماعت کا انتخاب کبھی بھی زیادہ مشکل نہیں رہا، کیوں کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا تھا کہ کسی بھی جماعت کے برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں پالیسی میں اختلاف کے سوا بنیادی قومی معاملات میں تسلسل برقرار رہے گا۔ اسی وجہ سے غیر تحریری آئین کے باوجود برطانیہ میں جمہوریت تیزی سے فروغ پاتی رہی۔ تاہم، بریگزٹ ریفرنڈم نے برطانوی باشندوں اور سیاسی جماعتوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا اور ہر شعبۂ ہائے زندگی پر ایک جمود کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ 

اس عرصے میں پوری برطانوی قوم اس مسئلے کے حل کی منتظر تھی، تاکہ آگے کا سفر طے کیا جائے۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ برطانوی عوام نے بورس جانسن کو اسی لیے بھاری اکثریت سے منتخب کیا کہ وہ مُلک کو اس غیر معمولی بحران سے نکالیں، جو عوام اور سیاسی جماعتوں کا اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔ ریفرنڈم کے بعد جب غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا ہوئی، تو بعض طبقات کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اُس وقت کے وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون غیر ضروری خود اعتمادی کے باعث یورپی یونین سے علیحدگی پر جلد بازی میں ریفرنڈم نہ کرواتے، تو شاید اس وقت صورتِ حال خاصی مختلف ہوتی۔ 

گزشتہ چار برس کے دوران 4انتخابات نے برطانوی عوام کو شدید الجھن میں مبتلا کر دیا تھا۔ گرچہ وہ ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دے چُکے تھے، لیکن چوں کہ بریگزٹ کے حامیوں نے نہایت کم مارجن سے کام یابی حاصل کی تھی، لہٰذا اس ریفرنڈم نے پوری قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ البتہ حالیہ انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کی فیصلہ کُن فتح نے برطانوی قوم کو ایک بار پھر متّحدہونے کا موقع فراہم کر دیا اور اسی لیے بورس جانسن نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ نیز، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ کسی جمہوری مُلک میں انتخابات ہی جمود کو توڑتے ہیں، چاہے وہ قبل از وقت ہی کیوں نہ ہوں اور یہی سیاسی استحکام کا بہترین طریقہ ہے۔ 

لہٰذا، سیاسی جماعتوں کو اس عمل سے راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے اور کم زور اتحادی حکومتوں کو بڑے فیصلوں سے گریز کرنا چاہیے۔ نیز، اگر کوئی غیر معمولی صورتِ حال درپیش ہو، تو اپنے عوام سے رجوع کرنا چاہیے۔ برطانوی عوام نے چار برس تک گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد اپنے حقِ رائے دہی کے ذریعے مُلکی تاریخ کے اہم ترین فیصلے کے لیے راہ ہم وار کی اور اب پوری قوم ہی پُر امید اور پُر جوش نظر آتی ہے۔

تازہ ترین