• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی اور ایم کیو ایم کی عوامی ساکھ بحال ہو جائے گی؟

کراچی کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اس رائے پر متفق نظر آتی ہے کہ اچانک سندھ اسمبلی میں پی پی حکومت کی طرف سے ایس پی ایل جی آرڈیننس2013ءکی واپسی اور اس کے خلاف اسمبلی کے اجلاس سے ایم کیو ایم کا واک آﺅٹ دونوں پارٹیوں کی متفقہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس رائے کے مطابق کچھ عرصہ پہلے ایم کیو ایم کے دباﺅ کے تحت پی پی کی طرف سے پانچ منٹ میں اس قانون کی منظوری کے نتیجے میں پی پی سندھ بھر میں اکیلی ہوگئی تھی۔ صوبے بھر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق آئندہ عام انتخابات کے دوران پی پی کے امکانی امیدواروں کےلئے عوام کے پاس جا کر ووٹ حاصل کرنا انتہائی مشکل نظر آ رہا تھا۔ اسی طرح یہ بھی واضح نظر آ رہا تھا کہ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم بھی اکیلی ہوگئی ہے اور اطلاعات کے مطابق باقی سب جماعتیں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف ون ٹو ون مقابلے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اس قانون کی اسمبلی سے منظوری کے بعد پی پی اور ایم کیو ایم کو چھوڑ کے باقی سب جماعتیں متحد ہوگئی تھیں۔ ان میں فقط سندھ کی قوم پرست تنظیمیں ہی شامل نہیں تھیں بلکہ ان میں باقی دیگر جماعتیں بشمول فنکشنل لیگ، نواز مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی، جے یو پی، پاکستان سنی تحریکبھی شامل تھیں۔ ان جماعتوں نے اس قانون کی وجہ سے حکومت کے خلاف نہ صرف کراچی شہر میں بلکہسندھ کے دیگر مقامات پر بھی مظاہرے کئے جن میں عوام نے بڑے پیمانے پر شرکت کی اور اس قانون کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان میں خاص طور پر فنکشنل لیگ اور اس پارٹی کے سربراہ پیر پگارا، جو حروں کے روحانی پیشوا بھی ہیں، نے عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے اور خاص طور پر سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو ایک جگہ منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر پیر پگارا نے ایک ماہ پہلے حیدرآباد میں ایک تاریخی بڑے جلسہ عام کا انعقاد کر کے اپنی دھاک بٹھا دی اور وہ ایک ایسا محور بنتے ہوئے نظر آنے لگے جن کے ساتھ مل کر دیگر جماعتیں جن میں خاص طور پر قوم پرست گروپ شامل تھے نہ صرف عوامی سطح پر پی پی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتے نظر آئے بلکہ عام انتخابات میں بھی یہ سب مل کے پی پی کے لئے ایک ایسا چیلنج بنتا ہوا نظر آیا جس کا مقابلہ کرنا پی پی کے لئے شاید اتنا آسان نہ ہوتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ قوم پرست تنظیموں نے دو تین بار سندھ پنجاب بارڈر سے کراچی تک نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر متعدد مقامات پر کئی کئی گھنٹوں تک دھرنے دے کے ان ساری شاہراہوں پر ٹریفک کو معطل کیا۔ یہ بھی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ یہ سب تنظیمیں آپس میں مل کر اجتماعی طور پر کراچی میں کوئی بہت بڑی ریلی کا انعقاد کریں۔ ابتدائی دنوں میں سندھ کے لوگ اس قانون کی وجہ سے اس حد تک مشتعل تھے کہ کئی مقامات پر پی پی ایم این اےز، ایم پی ایز اور وزیروں کے گھروں پر جوتوں کے ہار اورتوے ٹانکے گئے۔ ایک مرحلے پر دادو شہر میں سندھ کے ایک سینئر وزیر پر ایک جلوس کے دوران ایک خاتون نے جوتے پھینکے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حال ہی میں ایک ضمنی الیکشن کے دوران پی پی کے امیدواروں کو جو صوبائی وزیر ہیں کئی گاﺅں میں آنے نہیں دیا گیا اور ان کے گاﺅں کے لوگوں کی طرف سے پی پی کے ان امیدواروں کی بے عزتی کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آخرکار ان حلقوں میں پی پی کے یہ امیدوار کامیاب ہوگئے مگر ان کے مخالف چیختے رہے کہ ریاستی اثر کواس ضمنی الیکشن میں بے رحمی سے استعمال کیا گیا ہے۔ بہرحال بعد کی اطلاعات کے مطابق پی پی مخالف جماعتوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بجائے خود کو عام انتخابات کےلئے منظم کر کے مختلف حلقوں میں ملکر پی پی کو ہرانے کا پروگرام تیار کیا اور اس سلسلے میں طے کیا گیا کہ عوام میں اس قانون کے خلاف نفرت کو ان انتخابات میں الیکشن ایشو کے طور پر استعمال کر کے عام انتخابات میں پی پی کو چاروں شانے چت کیا جائے۔
جہاں تک کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کا راستہ روکنے کا تعلق ہے تو اطلاعات کے مطابق اکثر شہری جماعتوں مثلاً جماعت اسلامی، جے یو آئی، جے یو پی، اے این پی اور نواز مسلم لیگ کے بند کمروں میں اجلاس جاری ہیں جن میں کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے خلاف اکٹھے ملکر ون ٹو ون مقابلہ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کراچی کے کئی علاقوں میں پی پی کے رہنماﺅں نے پی پی کی قیادت پر واضح کیا کہ اگر پی پی نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کے انتخابات میں حصہ لیا تو وہ پی پی کے بجائے پی پی اور ایم کیو ایم کے مشترکہ امیدواروں کے مخالف امیدواروں کے ساتھ ہوں گے۔
جہاں تک پی پی کی طرف سے چند دن قبل سندھ اسمبلی میں متنازع ایس پی ایل جی قانون کی واپسی کے بل منظور کرنے کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ گزشتہ ہفتے جب پی پی ایم پی ایز کا ایک اجلاس بلایا گیا جس میں ان میں سے اکثر نے واضح طور پر قیادت کو بتایا کہ اگر یہ متنازع قانون واپس نہیں لیا گیا تو آئندہ عام انتخابات میں ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعد ازاں جب پی پی سندھ کی قیادت نے اس صورتحال سے پی پی کی مرکزی قیادت کو آگاہ کیا تو فوری طور پر پی پی کی مرکزی قیادت نے پی پی کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا ۔ اطلاعات کے مطابق پی پی کی مرکزی قیادت نے بھی پہلی بار ایم کیو ایم کی قیادت کے رویّے پر تحفظات ظاہر کئے۔ ان اطلاعات کے مطابق پی پی کی قیادت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت سے انڈر اسٹینڈنگ ہوئی تھی کہ وہ مارچ میں حکومت سے الگ ہوں گے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے تاکہ ان کے مشورے سے انتخابات کےلئے سندھ میں نگران حکومت بنائی جا سکے مگر پی پی کی مرکزی قیادت افسردہ تھی کہ ایم کیو ایم ابھی سے حکومت سے الگ ہوگئی ہے اور فنکشنل لیگ اور نواز مسلم لیگ کی قیادت سے ملاقاتیں بھی کر رہی ہے اور رابطے قائم کئے جا رہے ہیں لہٰذا ان اطلاعات کے مطابق مرکزی قیادت نے ہدایات دیں کہ دوسرے دن سے اچانک ایک بل لا کر ایس پی ایل جی2012ءکو مسترد کر دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مرحلے پر سندھ پی پی کی قیادت کو ہدایات دی گئیں کہ یہ سب کچھ اچانک کیا جائے اور ایم کیو ایم کو یہ بل اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے قطعی طور پر کوئی علم نہیں ہونا چاہئے پھر واقعی ایسا ہی ہوا۔ جب جمعرات کو اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اس دن کے اجلاس کے ایجنڈے میں ایسا کوئی آئٹم نہیں تھا۔ اچانک وزیر قانون نے ایک خاص موشن کے ذریعے ایوان سے اجازت مانگی کہ وہ ایجنڈے میں ایک نیا آئٹم شامل کرنا چاہتے ہیں۔ نیا آئٹم ایجنڈے میں شامل کرنے پر یہ نیا بل جس کے ذریعے ایس پی ایل جی2012ءکو مسترد کر کے 1979ءکے لوکل باڈیز کے قانون کو بحال کیا جانا تھا، پانچ منٹ میں منظور کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایس پی ایل جی2012ءاسمبلی میں پیش کیا گیا تو کسی ممبر کو اس بحث میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی اور پانچ منٹ میں یہ بل پاس کیا گیا تھا حالانکہ فنکشنل لیگ، این پی پی اور ہم خیال گروپ کے ممبران اس ایشو پر بولنا چاہتے تھے۔ اب بھی جب اس قانون کو ختم کرنے کےلئے یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو یہ بل بھی5منٹ میں منظور کیاگیا اور اس بل پر بھی فنکشنل لیگ، این پی پی اور ہم خیال گروپ کے ممبران بحث میں حصہ لینا چاہتے تھے مگر ٹریزری بنچز نے ان کو اس بار بھی بولنے نہیں دیا۔ فرق اتنا ضرور تھا کہ بل2012ءمنظور کرتے وقت ایم کیوایم کے ممبران خاموش رہے جبکہ یہ نیا بل منظور کرتے وقت ایم کیو ایم کے ممبران نے اس بل کی شدید مخالفت کی۔ بہرحال اسمبلی پریس گیلری سے اجلاس کی کارروائی کور کرنے والے صحافیوں کی اکثریت کی رائے تھی کہ ایس پی ایل جی 2012ءبل 5منٹ میں منظور کرانا بھی غلط اور پار لیمانی روایت کےخلاف تھا اور اب پھرنیا بل بھی 5منٹ میں بغیر کسی بحث کے منظور کرانا بھی غلط روایت ہے۔
یہ بل منظور کئے جانے کے بعد سے ایم کیو ایم نے ابھی تک اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اس کے باوجود اکثر سیاسی مبصرین کی یہ رائے ہے کہ پی پی اور ایم کیو ایم نے یہ سب کچھ مشترکہ حکمت عملی کے تحت کیا ہے تاکہ ایک طرف جب پی پی عام انتخابات میں عوام کے پاس جائے تو عوام کا غصہ کسی حد تک ٹھنڈا ہو چکا ہو۔ دوسری طرف اس قانون کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ وہ بھی مظلوم بن کے اپنے حلقوں میں جا سکیں گے اور لوگوںکے ووٹ حاصل کرنے کےلئے اس بات کی تشریح کریں گے کہ اس قانون کو مسترد کرنے سے شہری علاقوں کے لوگوں کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کی گئی ہے۔ بہرحال موجودہ گورنر کے برقرار رہنے سے بھی ان شکوک کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ سب کچھ پی پی اور ایم کیو ایم کی نورا کشتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ثبوت یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ اب کی بار بل کی منظوری کے خلاف ایم کیو ایم کے ایم پی ایز نے احتجاج اور بائیکاٹ تو کیا مگر وہ گھن گرج نہیں تھی جو ایم کیو ایم کے بائیکاٹ میں ہوتی ہے۔
تازہ ترین