• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں اس بات پر غور و فکر رہتا ہے کہ سب سے زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری کیا ہے؟ وہ کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں کم پیسے لگائے جائیں مگر منافع بہت زیادہ ہو۔

کسی کے خیال میں توانائی کے شعبے میں انویسٹمنٹ کرنا بہتر ہوگا، کوئی سوچتا ہے کہ سونے کی خرید و فروخت بہت اچھی رہے گی تو کوئی سمجھتا ہے آئی ٹی کی صنعت میں منافع بخش سرمایہ کاری کے بہت مواقع ہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی سطح پر بھی اس حوالے سے اختلافِ رائے رہتا ہے۔

کوئی سوچتا ہے کہ مواصلات کا نظام بہتر کر دیا جائے، سڑکیں، پل، شاہراہیں، موٹر ویز بنائی جائیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کیا جائے تو لوگوں کو آمد و رفت میں آسانی ہوگی اور ترقی کے مواقع بڑھتے چلے جائیں گے۔

چین کی ترقی کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ جس علاقے کی خوشحالی اور ترقی مقصود ہے وہاں تک سڑک پہنچا دیں، وہاں کے مکینوں کے حالاتِ زندگی خود بخود بہتر ہونے لگیں گے مگر اس سوچ کے برعکس بعض افراد سمجھتے ہیں کہ سڑکیں اور پل بنانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ لوگوں کو بنیادی طبی سہولتیں فراہم کی جائیں، انہیں سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی جائے۔

اسی طرح بیشمار آرا اور لاتعداد نقطہ ہائے نظر دستیاب ہیں مگر میں اس میں ایک اور رائے کا اضافہ کرتے ہوئے کہوں گا کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور اگر ہم تھوڑی سی سرمایہ کاری ان پر کریں تو یہ سب سے زیادہ منافع بخش ہو سکتی ہے۔ بچوں سے متعلق ہمارا رویہ یہ رہتا ہے کہ ہم انہیں اچھے برانڈ کے کپڑے اور جوتے تو لاکر دینے کو تیار رہتے ہیں،

ان کی ضد پوری کرتے ہوئے انواع و اقسام کے کھلونوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، ملٹی نیشنل فاسٹ فوڈ چین سے برگر اور پیزا کھلاتے ہوئے کسی قسم کا تردد نہیں کرتے مگر جب تعلیم کی باری آتی ہے تو اسکول کی فیس ادا کرتے یا کتابیں خریدتے وقت جان نکلتی ہے۔

اگر انہیں کسی اچھے اسکول میں داخل کروا بھی دیا جائے تو کبھی یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے کہ بچہ اسکول میں کیا گل کھلا رہا ہے، اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ کیسا چل رہا ہے۔ یہی رویہ جو انفرادی سطح پر پایا جاتا ہے وہی اجتماعی سطح پر بھی کارفرما دکھائی دیتا ہے۔

جب حکومتیں بجٹ بنانے لگتی ہیں تو مختلف مدات کے لئے رقوم مختص کرنے کے بعد جو تھوڑی بہت رقم بچ رہتی ہے وہ شعبۂ تعلیم کے لئے مختص کر دی جاتی ہے۔

میں بالعموم تقریبات میں جانے سے گریز کرتا ہوں مگر جب بھی طلبہ و طالبات سے متعلق کسی تقریب میں جاتا ہوں تو عجب سرشاری کی کیفیت طاری ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں دیکھ کر اپنا زمانہ طالبعلمی یاد آجاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کی آج کل کے طلبہ و طالبات پہلے سے کہیں زیادہ ذہین و فطین ہیں تب امتحانات میں نمبر لینا بہت مشکل ہوتا تھا مگر اب طلبہ و طالبات حیران کن کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں، ان کے گریڈ اچھے ہوتے ہیں، پوزیشن لینے کے لئے مقابلہ بہت سخت ہو گیا ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے ٹاپ کرنے والے ہیرو عملی زندگی میں زیرو ہو جاتے ہیں۔

شعبۂ تعلیم سے وابستہ افراد کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ آخر خرابی کہاں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ جب ہم معاشرے کے انتہائی پڑھے لکھے افراد کا طرزِ عمل دیکھتے ہیں تو بےاختیار یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ تعلیم ان لوگوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی۔

چند روز قبل لاہور میں پنجاب کے سب سے بڑے ادارہ امراضِ قلب میں جو کچھ ہوا، کیا اس سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں، ہمارے نصاب میں کوئی بنیادی نوعیت کی کمی اور خامی ہے؟

میری دانست میں یہ کمی تعلیم کیساتھ تربیت اور کردار کی مضبوطی پر عدم توجہی سے متعلق ہے۔ تعلیمی اداروں میں پوزیشنیں لینے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اس میں بچوں کو محض ایک روبوٹ بنا دیا گیا ہے جس کا کام جیسے تیسے نمبر لے کر فرسٹ آنا ہے تاکہ پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات کو کارکردگی کا اشتہار بنا کر پیش کیا جا سکے۔

اگر حافظے کا امتحان لینا ہی مقصود ہے، اگر معلومات کا ذخیرہ ہی مطمح نظر ہے تو پھر انسانوں کی جگہ روبوٹ یہ کام بدرجہا بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں مگر تعلیم کا اولین مقصد انہیں ایک اچھا انسان، ایک بہترین شہری بنانا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نصاب سے ہٹ کر مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں لائبریریاں آباد کی جائیں۔ نصاب سے ہٹ کر مطالعہ کرنے والے طلبہ و طالبات کو امتیازی نمبر دیے جائیں اور غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔

اول تو مجھے اس اصطلاح پر ہی تحفظات ہیں، جنہیں ہم غیرنصابی سرگرمیاں کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ دراصل ہم نصابی سرگرمیاں ہیں جن کے بغیر طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں ہو سکتا۔ کھیلوں کے مقابلے، کوئز کمپیٹشن، تقریری مقابلے، مباحثے، بیت بازی سمیت تمام مثبت سرگرمیاں طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہیں اور ان کو اعتماد کی طاقت فراہم کرتی ہیں۔

اس کیساتھ کوئی ایک پیریڈ اخلاقیات کا بھی ہونا چاہئے جس میں طلبہ و طالبات کو بنیادی انسانی حقوق سے آگاہ کیا جائے۔ یہ بتایا جائے کہ معاشرے میں اُن کا برتائو کیسا ہونا چاہئے، آدابِ زندگی کی تعلیم دی جائے۔ اُنہیں ٹریفک قوانین کی پابندی کا درس دیا جائے، لوگوں سے بات چیت کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھایا جائے۔

یہ حقیقت واضح کی جائے کہ آپ ہر قسم کی صلاحیت اور قابلیت مستعار لے سکتے ہیں مگر کردار کی عظمت جنس ِ بازار نہیں، اس لئے انسان کی شخصیت میں کردار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ جب تک ہم نونہالانِ قوم پر یہ سرمایہ کاری نہیں کریں گے، عدم برداشت پر مبنی ایسے واقعات نہ صرف ہوتے رہیں گے بلکہ ان میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

(لاہور میں ایک اسکول کے زیر انتظام برین آف دا لاہور کے عنوان سے ہو رہے مقابلوں کی تقریب کے دوران کی گئی گفتگو کا خلاصہ)

تازہ ترین