• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹورازم کے حوالے سے ہندوستانیوں کی پیشہ ورانہ مہارت کی داد دینا پڑتی ہے۔ جہاں بھی ذرا سی گنجائش ہو، رونق پیدا کر لیتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر واقع قصبہ سرہند حضرت مجدد الف ثانی کی آخری آرامگاہ کے حوالے سے مشہور ہے۔ پاس سے گزرنے والی نہرسرہند کے پانیوں پر بنے فلوٹنگ ریسٹورنٹ کا نظارہ بھی دل کو لبھانے والا ہے۔ بشن سنگھ سے میری ملاقات اسی ریسٹورنٹ میں ہوئی تھی۔ اسّی برس سے اوپر کے نکودر کے اس جاٹ کی ذہنی اور جسمانی چستی حیران کن تھی۔ لاہور سے دہلی جانے والی بس میں یکایک خرابی پیدا ہونے کے سبب دو گھنٹے کا انتظار موصوف سے گپ شپ میں محسوس ہی نہیں ہوا تھا۔ ایف سی کالج لاہور کا پڑھا ہوا بشن سنگھ زیادہ وقت آزادی سے پہلے کے قصوں میں الجھا رہا۔ جب اس خطہ ارض میں ہندو، مسلم ، سکھ سبھی اپنوں کی طرح رہتے تھے۔ مسائل پیدا ہوتے تھے مگر سب مل جل کر نمٹا لیتے تھے۔ نفرت اور تشدد کا نام و نشان نہ تھا اور پھر بائیں آنکھ میچ کر کہنے لگا ”ہوتا بھی کیسے؟ سب کی جڑ بنیاد تو ایک ہی ہے۔ میں باجوہ جاٹ ہوں اور پاکستانی پنجاب میرے گوت کے جاٹوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی حال راجپوتوں، پٹھانوں اور دیگر کا ہے سب کے گوت سانجھے ہیں، آدھے ادھر ہیں تو آدھے ادھر۔
بچپن کے واقعات سناتے ہوئے کہنے لگا کہ اس زمانے میں بیاہ شادی کے موقع پر میراثی لوگ شجرہ پڑھا کرتے تھے اور مسلمان جاٹ / راجپوت ہندو اجداد کے نام شروع ہوتے ہی شجرہ خوانی بند کرا دیتے تھے۔ میرا ہاتھ دبا کر کہنے لگا ، کاکا! یہ سب ایک ہی ہیں۔ رہ گئی بات دین کی، تو اسلام باہر سے آیا تھا۔ جس کو بھایا، وہ مسلمان ہو گیا اور باقی باپ دادا کی لائن پر لگے رہے اور پھر مذہب تو سارے ہی اوپر والے کے ہیں، کون سا دھرم ہے جو نفرت سکھاتا ہو؟ سبھی محبت، امن اور آشتی کا درس ہی تو دیتے ہیں۔ ہم لاکھ جدا ہو جائیں، بارڈر بن جائیں، باڑیں لگ جائیں اور دیواریں کھڑی ہو جائیں، ایک دوسرے سے بیگانہ نہیں ہو سکتے۔ ہم نے ایک دوسرے کی خبر سرت رکھنی ہی رکھنی ہے، دیوار اونچی ہو گی تو کسی موڈھے یا اسٹول پر کھڑے ہو کر ادھر جھاتی مار لیںگے۔دونوں ملکوں کے مابین آمد ورفت کا ذکر چلا تو کہنے لگا، ویزہ، پرمٹ تو دور کی بات، تمہارے سفارت خانے والے تو پنجاب کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ مگر کیا کریں؟ ہمارا گزارہ بھی تو نہیں۔ ہمارا تو قبلہ کعبہ سب کچھ ادھر ہی ہے۔ دوبار جتھے کے ساتھ پاکستان جا چکا ہوں، اب وہ بھی لفٹ نہیں کراتے۔ کہتے ہیں، بہت بڈھے ہو گئے ہو، اگر ریکھا پار چل چلاﺅ ہو گیا تو مشکل ہو جائے گی۔ کچھ دن پہلے ٹورازم والوں نے دہلی میں نمائش لگائی تھی۔ پاکستان کی شرکت کا سن کر میں بھی گیا تھا۔ شالیمار باغ کی بارہ دری کا سنگ مرمر کا ماڈل دیکھ کر دل کرچی کرچی ہو گیا کیونکہ ایف سی کالج کے زمانے میں ہمارے اکثر ویک اینڈ اسی شہرہ آفاق مغل یادگار میں گزرتے تھے۔ نمائش میں ہی پاکستانی گویوں سے مسلمان صوفیا کی کویتا سنی تو یوں لگا کہ گویا گوروبانی کا پاٹھ ہو رہا ہو۔
یکایک بشن سنگھ ماضی سے نکل آیا اور کہنے لگا ، یار ! تم لوگ بہت ظالم ہو۔ پچھلی بار جتھے کے ساتھ لاہور گیا تو پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے شالیمار کی جانب جا نکلا، گیٹ والوں نے پگڑیاں دیکھتے ہی ڈالروں والا ٹکٹ تھما دیا۔ یار! کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ جیسے تم غریب، ویسے ہم غریب، تو مقامی غریبوں کو ڈالروں والا ٹکٹ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ باہر والوں سے جو جی چاہے لو، مگر اپنے لوگوں کے ساتھ تو ہاتھ ہولا رکھو۔ اس پر بابا جی کویاد دلایا کہ ”ایں جرمیت کہ در شہر شما نیز میں کنند“ یعنی یہ جرم آپ کے ہاں بھی ہوتا ہے اور تاریخی مقامات پر پاکستانیوں کو باہر والے ہی شمار کیا جاتا ہے، جس کا تجربہ ہمیں بھی متعدد بار ہو چکا ہے۔ دہلی میں مغل شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر حاضری دی، تو ٹکٹ بابو نے پوچھا، پاکستان سے آئے ہو؟ حیرانی سے دریافت کیا مگر تمہیں کیسے پتہ چلا، بولا۔ آپ کے ماتھے پر لکھا ہے ، اللہ کا شکر ادا کیا، جس نے ہمارے چہرے بشرے ایسے بنائے ہیں کہ ہجوم میں گم نہیں ہوتے۔ ٹکٹ مانگا تو بولا پانچ ڈالر دے دیجئے۔ نرخ بالا کی وجہ پوچھی تو بولا، غیر ملکیوں کے لئے یہی ریٹ ہے۔ ہم بھی موج میں تھے، بنیئے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کیوں بھائی ہماری ہی جگہ کے لئے ہمیں سے ٹکٹ مانگ رہے ہو؟ ہمارے لئے تو فری میں ہونا چاہئے۔ آدمی صاحب دل تھا ، فوراً بات کی تہہ کو پہنچ گیا، بولا مہاراج !مفت تو خیر نہیں، آپ دس روپے کا ٹکٹ خرید لیں۔
قطب مینار پہنچے تو حیرانی کی حد نہ رہی کہ وہاں کے ٹکٹ والے نے بھی ہمیں پہچان لیا بولا مہاراج ! پاکستان سے آئے ہو، پانچ امریکن ڈالر کا ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ ہم نے یہاں بھی ہمایوں کے مقبرے والا نسخہ آزمانا چاہا اور کہا کہ ”قطب تو ہمارا ہے اور ہماری چیز کا ہمیں سے ٹکٹ مانگتے ہو؟ لیکن یہاں کا ٹکٹ بابو کچھ دوسری طرح کا آدمی تھا۔ بولا ”مہاراج ! مانا کہ چیز آپ کی تھی، مگر آپ تو اسے لاوارث چھوڑ کر چلے گئے، ہم دیکھ بھال کرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو دینا ہوگا“ جواب اس کا بھی معقول تھا چنانچہ ڈالروں والا ٹکٹ خرید لیا۔ غیر ملکیوں سے زیادہ پیسے بٹورنے کا تجربہ مارچ 2007ءمیں اسلام آباد میں متعین جرمن سفیر گنٹرمولیک کوبھی ہوا تھا۔ موصوف کسی کام سے لاہور گئے، واپسی پرسوچا کہ کیوں نے معروف زمانہ مغل یادگار ہرن مینار کا بھی چکر لگا لیا جائے، جو راہ میں پڑ رہا تھا اور جس کی مرمت و بحالی کیلئے ایک خطیر رقم جرمن حکومت نے بطور عطیہ دی تھی۔ سفیر محترم گیٹ پر پہنچے تو وہاں متعین عملہ کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ ایک گورا پھنسا ہے اور اس سے 200 روپے کی وصولی کرنا ہے۔ خیر فیس داخلہ ادا کر کے احاطہ میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ ہرن مینار تو بند ہے۔ بس دور ہی سے درشن ہو سکتے ہیں۔ موصوف اس چیٹنگ پر بہت رنجیدہ ہوئے اور وزیراعظم سے شکایت بھی کی تھی۔
تازہ ترین