• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بورس جانسن کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کی برطانیہ چھوڑنے کی تیاریاں

بورس جانسن کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کی برطانیہ چھوڑنے کی تیاریاں


برطانیہ میں ایک مرتبہ پھر بورس جانسن کے اقتدار میں آنے کے بعد برطانیہ میں مقیم مسلمان اس ملک کو چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

بورس جانسن کی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے انتخابات میں کامیابی کے بعد نسل پرست لوگوں کی جانب سے طعنہ بازی میں اضافہ ہوگیا ہے اور دائیں بازو کے کارکنان جو اپنا تعلق جانسن کی جماعت سے بتاتے ہیں، اب مسلمانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ برطانیہ کو چھوڑ دیں یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

ایک مقامی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ برطانیہ چھوڑنے کی تیاری کرنے والوں میں منظور علی نامی ایک سماجی کارکن بھی ہیں جو مانچسٹر میں غریب لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔

منظور علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں اپنی حفاظت کی وجہ سے خوف زدہ ہوں، میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بھی پریشان ہوں۔‘

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پر مسلمانوں کے خلاف متنازع بیانات پر ان پر ہمیشہ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

بورس جانسن نے کہا تھا کہ اسلام سے خوفزدہ ہونا لوگوں کے لیے فطری ہے۔ ایک مرتبہ اپنے کالم میں انہوں نے باحجاب مسلمان خواتین کو ڈاک خانہ کہہ ڈالا جبکہ ایک اور مضمون میں انہوں نے اسلام کی تضحیک کی تھی۔

منظور علی کہتے ہیں کہ میرے اہل خانہ کی دعائیں ساتھ ہیں کہ ہم کسی ایسی جگہ منتقل ہوجائیں جو ہمارے لیے محفوظ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا خیرات جمع کرنے اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا سلسلہ گزشتہ 10 سال سے جاری ہے، چندہ جمع کرکے ہر طرح کے لوگوں کی مدد کی جس میں سابقہ فوجی سفید فارم انگریز لوگ بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ ان کا گھر ہے، اور اب وہ نہیں جانتے کہ انہیں کہاں جانا ہے لیکن ان کا خاندان اس بات پر رضامند ہے کہ انہیں ایسی جگہ منتقل ہونا چاہیے جہاں ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔

مقامی میڈیا نے 38 سالہ ایڈن نامی خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی حفاظت سے متعلق خوفزدہ ہیں۔

ان پر کچھ نسل پرستوں کی جانب سے تشدد کیا گیا تھا، ان کا اسکارف بھی اتار دیا گیا تھا جبکہ انہیں ’دہشت گرد‘ تک کہہ دیا گیا تھا۔

انہیں خدشہ ہے کہ یہ انتخابی نتائج نسل پرستوں اور اسلام مخالفین کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ اب وہ برطانیہ کے باہر روزگار کی تلاش کے لیے متحرک ہوگئی ہیں، یہ ممالک شاید ترکی یا پاکستان ہوسکتے ہیں، تاہم وہ خوف زدہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بھتیجی جو ایک ڈاکٹر ہیں کہتی ہیں کہ ’میں نہیں جانتی کے اب یہ (برطانیہ) ہمارے لیے ٹھیک ملک ہے۔‘

مسلم کونسل برطانیہ (ایم سی بی) کے ترجمان مقداد ورسی اس حوالے سے متفق دکھائی نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے غیر متوقع نہیں کہ کچھ مسلمان یہاں سے جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے کئی مسلمانوں کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہمیں ایسا کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے، اپنے حقوق اور مساوات کی لڑائی کے لیے کھڑے ہونا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں نسل پرستی کے خلاف پہلے سے زیادہ اظہار یکجہتی کی ضرورت ہے۔

تاہم انہوں نے زیک گولڈ اسمتھ کو کابینہ میں شامل کرنے کے بورس جانسن کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ لندن کا میئر بننے کے لیے نسل پرستانہ مہم چلانے والے زیک گولڈ اسمتھ کو اہم عہدہ دیا جارہا ہے اور وہ بورس جانسن کی کابینہ کا حصہ ہوں گے۔

لیبر پارٹی کی ایک امیدوار فائزہ شاہین کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد لوگوں نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ چھوڑنے کے بارے میں سوچ و بچار کر رہے ہیں جن میں ان کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان سے 5 مختلف خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملاقات کے دوران کہا کہ ملک میں نسل پرستی بد سے بدتر ہونے کی صورت میں انہوں نے برطانیہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

فائزہ شاہین کہتی ہیں کہ یہ بہت ہی خوفناک لمحہ ہے جہاں اس وقت ہم موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ برطانیہ میں بسنے والی دیگر اقلیتیں بھی برطانیہ سے جانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

نسل پرستی کا خوف اس وقت مزید پروان چڑھا جب بورس جانسن کی کامیابی کے بعد کچھ لوگوں کو آن لائن یہ دھکمیاں ملیں کہ وہ برطانیہ چھوڑ دیں۔

جنہیں ان دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا وہ برطانیہ میں موجود تارکین وطن کے پس منظر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات ہیں۔

طلبہ تنظیم کے ایک رہنما حسن پٹیل سے کہا گیا ہے کہ وہ خاموش رہیں کیونکہ وہ برطانوی نہیں ہیں، وہ اپنے ایک ٹوئٹ میں کہتے ہیں کہ اب ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

آکسفورڈ لیبر کونسلر شائستہ عزیز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بتایا کہ انہوں نے نسل پرستانہ رویے سے متاثر اپنے پڑوسیوں کی پولیس میں رپورٹ درج کروانے میں مدد کی۔

مہدی حسن نامی ایک صحافی نے انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ٹوئٹ کیا اور کہا کہ برطانیہ میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے سیاہ باب کا آغاز ہوگیا ہے۔

کنزویٹو پارٹی کی کامیابی کے اعلان کے بعد سابقہ چیئرپرسن سیدہ وارثی نے اسے مشورہ دیا تھا کہ برطانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نسل پرستی کو مسترد کردیا تھا اور اسلاموفوبیا کی آزادانہ انکوائری کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

ایک دائیں بازو کے مصنف کیٹی ہوپکنز نے وارثی کو جواب میں کہا تھا کہ کنزرویٹو پارتی ان کی جماعت نہیں ہے جبکہ اب سفید فارم قومیت متحد ہوچکی ہے۔

اس پر وارثی نے جواب دیا تھا کہ وہ ڈیوزبری میں پیدا ہوئیں، ان کا خاندان پچھلے 150 سال سے برطانوی ہے۔ ان کے دادا اور نانا نے برطانوی بھارتی فوج میں خدمات انجام دیں اور ان کا خاندان نسلوں سے فاشسٹس کے خلاف برطانیہ کا دفاع کرتا آرہا ہے۔

تازہ ترین