جس کا ڈر تھا وہی ہوا ،سینکڑوں کی تعداد میں غنڈوں نے ہمارے کیمپ پر حملہ کردیا تھا ، ان کے ہاتھوں میں لوہے کی راڈز ، پستولیں اور ڈنڈے تھے ۔
ہماری بستی کے تمام محصورین پاکستانی اپنی زندگی ،مال و اسباب اور عزتیں بچانے کے لئے کیمپ کے اندر ہی جائے پناہ ڈھونڈ رہے تھے ، پھر کہیں اسلحہ چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور پورے کیمپ کو بنگالی غنڈوں نے آگ لگادی۔
ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ کیمپ کے کچھ بچوں نے کیمپ کی حدود سے باہر نکل کر پٹاخے چلائے تھے اور یہی بات ان شرپسندوںکو بری لگی اور پھر انھوں نے شب برات کی رات کو اپنے ہی پاکستانی مسلمان بھائیوں پر حملہ کیا اور ان سے ایسا بدلہ لیا کہ ہمارے کیمپ کے دس محصورین پاکستانی شہید ہوگئےجس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھا جبکہ درجنوں کی تعداد میںمحصورین پاکستان زخمی بھی ہوئے ۔
علاقے کی پولیس جس کا فرض تھا کہ ان شرپسندوں کو روکتی اس نے بھی بنگالی شرپسندوں کے ساتھ مل کر محصورین پاکستانیوں پر حملے شروع کردیئے ۔ایسا لگ رہا تھا کہ اکہتر کی جنگ کا غصہ اب تک بنگلہ دیش میں مقیم مظلوم محصورین پاکستانیوں پر نکالاجا رہا تھا ۔
شرپسندوں کے اس حملے میں میرے بھی کئی رشتہ دار شہید ہوگئے تھے ،مجھے اس وقت جتنا غصہ بنگلہ دیشی حکومت اور پولیس پر آرہا تھا اتنا ہی غصہ اس بات پر بھی تھا کہ ہمارے دشمن ہم جیسے مظلوموں پر ظلم کرکےیہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان سے بدلہ لے لیا ہے۔اس روز بنگالی شرپسندوں کے حملے میں ہماری جھونپڑیاں تباہ ہوگئیں ، ہمارا مال و متاع لوٹ لیا گیا اور ہمیں بے گھر کردیا گیا ۔
میں نے اس ہی دن سے بنگلہ دیش سے نکلنے کی کوششیں شروع کیں تاکہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو یہاں سے نکال سکوں اور مہینوں کی بھاگ دوڑکے بعد میں اس وقت آپ کے سامنے قطر میں موجود ہوں ۔ میرے سامنے بیٹھا افتخار نامی یہ نوجوان بنگلہ دیش میں رہ جانے والے محصورین پاکستانیوں کی اولاد میں سے تھا اور مجھے قطر کے ایک اسٹار ہوٹل جہاں میں چند دنوں کے لئے رکا تھا ، کی لفٹ میں صفائی کرتےہوئے ملا تھا ۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں پاکستانی ہوں اور مثبت جواب پر مجھ سے گپ شپ شروع کردی ۔ میں نے اسے رات کو ہوٹل سے باہر ایک کافی شاپ میں بلایا تاکہ اس کے حالات زندگی جان سکوں اور اسی کی زبانی بنگلہ دیش میں محصورین پاکستانیوں پر ہونے والے ظلم وستم کے واقعات سے آگاہ ہوسکوں۔
افتخار کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ بتارہا تھا کہ اب اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوچکی تھی کہ وہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو بذریعہ ہوائی جہازپاکستان بھجواسکے لیکن حکومت پاکستان محصورین پاکستانیوں کو کو قبول کرنے پر تیار نہ تھی ۔
افتخار کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے ہی محصورین پاکستانی بنگلہ دیش میں شدید تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں جبکہ افتخار سمیت ہزاروں پاکستانی تو بنگلہ دیش کے قیام کے کئی سالوں بعد پیدا ہوئے ہیں لیکن ان کی جذباتی وابستگی ان کے والدین کے ملک سے ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان افتخار اور اس جیسے ہزاروں نوجوانوںکی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے لیکن پاکستان کی حکومت محصورین پاکستانیوں کو ہی لاوارث قرار دے چکی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت بھی کہتی ہے کہ یہ ہمارے لوگ نہیں ہیں انھیں آپ ہی اپنے ملک میں سیٹ کریں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے تیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کا بوجھ تو دہائیوں سے اٹھایا ہوا ہے لیکن اپنے ہی تین سے پانچ لاکھ پاکستانیوں کو بے یار و مددگار بنگلہ دیش میں سسکنے اور بلکنے کے لئے چھوڑ دیا ہے ۔
ریاست تو امریکہ اور جاپان جیسی ہوتی ہے ، حال ہی میں جاپان کے شہری ڈاکٹر ناکامورا کو افغانستان میں قتل کردیا گیا تو جاپان کی پوری ریاست پر سکتہ طاری ہوگیا۔
خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعے اپنے جاپانی شہری کو واپس بلوایا گیا اور جب تک ڈاکٹر ناکامورا کے قاتل گرفتار نہیں ہونگے جاپانی حکومت خاموش نہیں بیٹھے گی ۔
یہی صورتحال امریکہ کی ہے کہ اگر امریکی شہری پاکستان میں قتل بھی کردے تو امریکی ریاست اس قاتل کو بھی چھڑا کر لے جاتی ہے لیکن پاکستانی ریاست کے پانچ لاکھ شہری بنگلہ دیش میں چالیس سال سے زائد عرصے سے پھنسے ہوئے ہیں لیکن ریاست کہتی ہے کہ یہ ہمارے نہیں ہیں ،افسوس کا مقام ہے ۔
اسی حوالے سے امریکہ میں مقیم سینئر پاکستانی احتشام ارشد نظامی جنھوں نے بنگلہ دیش میں محصورین پاکستانیوں کی فلاح بہبود کے لئے اپنی تنظیم فرینڈز آف ہیومینٹی کے ذریعے تعلیم ، تربیت اور صحت کے شعبوں میں بھرپور خدمات انجام دی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاست پاکستان کوماں جیسا کردا ر ادا کرنا ہوگا کیونکہ محصورین بہت مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ، ان کی پاکستان سے محبت بھی لازوال ہے جبکہ بنگلہ دیش میں انھیں تعصب اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے لہذا یہ بات تو یقینی ہے کہ محصورین پاکستان کا مستقبل بنگلہ دیش میں مشکل ہے۔
پاکستان کی حکومت ان کے بہتر مستقبل کے لئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور بطور ریاست پاکستان کو بنگلہ دیش میں پھنسے اپنے شہریوں کے سر پر دست شفقت رکھنا چاہئےتاکہ پاکستانی قوم اپنی ریاست پر فخر کرے ۔