• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

80ء کی دہائی میں ملیر سے چلنے والی بسیں اور ویگنیں

عبیداللہ کیہر

80ء کی دہائی میں ملیر تک آنے والی بسوں اور ویگنوں کے چند ہی پبلک ٹرانسپورٹ رُوٹس تھے جو روزانہ یہاں کے باسیوں کو شہر کے مختلف خطوں تک لے جاتے اور وہاں سے واپس لاتے تھے۔

ان گاڑیوں میں سب سے اہم کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے ٹی سی) کی بس نمبر ’15A‘ تھی جو کھوکھراپار مہران ہوٹل اسٹاپ سے چلتی تھی اور چمن کالونی، ندی کنارا، کھوکھراپار نمبر 6، 5، 4، 3، 2 اور 1 کے اسٹاپوں پر رکتی ہوئی سعود آباد، ملیر ٹنکی، لال مسجد اور کالا بورڈ سے ہوکر شارع فیصل کے راستے صدر جاتی تھی۔

مجھے یاد نہیں کہ صدر تک اس کا کرایہ کتنا تھا کیونکہ ہم تو اسٹوڈنٹ تھے اور صرف 30 پیسے دیا کرتے تھے۔ دوسری 15 نمبر بس تھی جو سعود آباد گرلز کالج کے سامنے سے چلتی تھی اور لیاقت مارکیٹ، جناح اسکوائر، محبت نگر اور ملیر سٹی سے ہوتی ہوئی صدر جاتی تھی۔ 15 نمبر روٹ کی یہ بس لوگوں کے لئے اتنی اہم تھی کہ جس جگہ سے یہ نیشنل ہائی وے چھوڑ کر اندر ملیر کی طرف مڑتی تھی، اس اسٹاپ کا نام ہی ’ملیر 15‘ پڑگیا۔

آج اس بس کو بند ہوئے 2 عشرے گزر گئے ہیں لیکن وہ اسٹاپ آج بھی ملیر 15 ہی کہلاتا ہے۔ ان دو کے علاوہ کے ٹی سی کی ایک اور بس ’9C‘ بھی تھی جو صدر سے آتے ہوئے ملیر ہالٹ سے اندر سیکیورٹی پرنٹنگ پریس والے روڈ پر مڑ جاتی تھی اور ماڈل کالونی سے گزرتی ہوئی ملیر کینٹ تک جاتی تھی۔ کچھ عرصے کے لیے ایک ’15E‘ نمبر کی بس بھی چلی تھی جو شاید لیاقت آباد اور سائٹ ایریا کی طرف جاتی تھی۔

ان سرکاری بسوں کے علاوہ کچھ پرائیویٹ بسیں بھی مہران ہوٹل سے لی مارکیٹ جاتی تھیں۔ کراچی کی یہ رنگ برنگی، دولہن کی طرح سجی ہوئی بسیں عام طور پر بلوچ ٹرانسپورٹرز کی ملکیت ہوا کرتی تھیں۔ لی مارکیٹ اور کھوکھراپار کے درمیان چلنے والی ان بسوں کا روٹ نمبر ’51A‘ ہوتا تھا، جبکہ اسی طرح کی ایک اور بس ’52A‘ بھی تھی جو لی مارکیٹ سے قائد آباد جاتی تھی۔

’51A‘ ڈرگ روڈ پر پہنچ کر شارع فیصل کو چھوڑ دیتی تھی اور سی او ڈی والے روڈ (جو بعد میں راشد منہاس روڈ کہلایا) پر مڑ جاتی تھی اور ڈرائیو اِن سنیما، ڈالمیا، اسٹیڈیم، لیاقت اسپتال، ٹی وی اسٹیشن، نیو ٹاؤن، سینٹرل جیل، پیر کالونی، تین ہٹی، لسبیلہ اور گاندھی گارڈن سے ہوتی ہوئی لی مارکیٹ تک جاتی تھی۔ رات گئے لی مارکیٹ سے ملیر واپس آنے والی یہ بس جب ڈرائیو اِن سنیما کے پاس سے گزرتی تو اندھیرے میں سنیما کی کئی منزلہ بلند اوپن ایئر اسکرین پر چلنے والی فلم کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ کھڑکیوں سے اپنا پورا سر باہر نکال لیا کرتے تھے۔

ان بسوں کے پیچھے سیڑھی بھی ہوا کرتی تھی جس سے چڑھ کر لوگ بس کی چھت پر بیٹھ کر ہوا کھاتے ہوئے بھی سفر کرتے تھے۔ ان بسوں کے لیے عام طور پر ’ٹھٹے والی بس‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی کیونکہ یہ ٹھٹھہ جانے والی بسوں کی طرح ہوتی تھیں۔ ان کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر عام طور پر مکرانی بلوچ ہوتے تھے۔ یہ کنڈیکٹر چلتی بس سے لٹک کر کرتب دکھانے کے انداز میں چھت پر چلے جاتے تھے اور وہاں بیٹھے مسافروں سے ٹکٹ وصول کرکے اسی طرح بازی گری کرتے ہوئے فاتحانہ انداز میں نیچے واپس بھی آجاتے تھے۔

ہر بس کے اندر چھت میں تیز آواز والے کئی اسپیکر نصب ہوتے تھے جن پر عام طور سے انڈین گانے بجتے رہتے تھے۔ کوئی باذوق ڈرائیور ہوتا تو محمد رفیع، کشور کمار، طلعت محمود، مکیش، ہیمنت کمار اور لتا کے پرانے گانے چلاتا تھا، ورنہ عام طور پر نئے بے ہنگم اور بیہودہ گانے ہی بجائے جاتے تھے۔

ان ٹھٹے والی بسوں کے علاوہ ایک پیلی بیڈ فورڈ ویگن ’R‘ بھی ہوتی تھی جو کھوکھراپار ڈاکخانہ سے صدر جاتی تھی۔ اس کا کرایہ تو نسبتاً مہنگا ہوتا تھا، مگر اسٹاپ کم ہوتے تھے۔ یہ جیل روڈ اور مزار قائد کے راستے صدر جاتی تھی۔ اس ابتدائی دور میں غالباً یہی 5 یا 6 بسیں تھیں۔

پختون ڈرائیوروں والی مزدا منی بسوں اور کوچوں کا دور ابھی عام نہیں ہوا تھا۔ میں اسکول کبھی سائیکل پر جاتا تھا اور کبھی ان بسوں میں بیٹھ کر۔ رش اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ لوگ خطرناک طریقے سے دروازوں پر لٹک لٹک کر بھی سفر کیا کرتے تھے۔ کئی دفعہ حادثات بھی دیکھے۔ دروازے پر لٹکے کسی مسافر کا کسی موڑ پر بس کی تیز رفتاری کے باعث ہاتھ چھوٹ جاتا اور وہ دور جا کر گرتا، ہاتھ پاؤں تڑواتا یا پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر ہی جاتا۔ ہمارا گھر چونکہ آخری اسٹاپ کے قریب تھا اس لیے مجھے اکثر جگہ مل جایا کرتی تھی۔

میں آج تک جن پرانے انڈین گانوں سے واقف ہوں، وہ زیادہ تر انہی بسوں میں سفر کے دوران ہی سن سن کر یاد ہوئے تھے۔ وہ سارے گانے مجھے آج بھی یاد ہیں۔

’’کراچی جو اِک شہر تھا‘‘ سے، اقتباس

تازہ ترین