• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اپنے آپ کو اتنا غیر محفوظ کیوں محسوس کر رہے ہیں کہ جتھہ بندی پر اتر آئے ہیں۔ کیا ہم ذہنی طور پر معذور ہوتے جارہے ہیں۔ 72سال میں تو ذہن پختہ ہونے چاہئے تھے۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، کاش یہ دیکھنے کو نہ ملتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے۔ شہر کے ایک جدید ترین بڑے شاپنگ مال کے تہہ خانے میں متاثرہ ذہانت کے پاکستانیوں کی ہنرمندی کی نمائش ہو رہی ہے۔ کراچی ووکیشنل ٹریننگ اسکول کے بچوں بچیوں کی مصنوعات آراستہ ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں ان کے والدین بھی نظر انداز کر دیتے ہیں مگر یہ ادارہ ان کی آغوش بنتا ہے۔ نہ صرف ان کو گود لیتا ہے بلکہ ان کے اندر چھپی صلاحیتیں دریافت کرکے اس شعبے میں ان کی تربیت بھی کرتا ہے۔ ان میں سے بہت سے کندن بن کر بڑے بڑے عہدوں پر بڑی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ، معلمات، ایڈمنسٹریشن سب ہی بڑی شفقت سے پیار سے ان لاڈلوں کو سنبھالتے ہیں۔ بلند قامت ادب و دانش کے دلدادہ عبدالحسیب خان اس نیکی کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہاں امیر گھرانوں کی اولادیں بھی ہیں اور غریبوں کی بھی۔ یہ دیکھیں ایک نوجوان پاکستان کے نغمے گا رہا ہے۔ پورے اعتماد سے پورے وثوق سے۔ سُر تال کا خیال بھی ہے اور حاضرین کو جوش بھی دلاتا ہے۔

آپ انہیں ذہنی معذورکہتے ہیں۔ نہیں ذہنی معذور یہ نہیں ہیں، ان میں تو کچھ کرنے اور سیکھنے کی امنگ ہے۔ ذہنی معذور تو وہ ہیں جو اسپتالوں پر حملے کرتے ہیں، جاں بلب مریضوں کے وینٹی لیٹر ہٹاتے ہیں۔ ذہنی معذور وہ ہیں جو اپنے مریضوں کو سسکتا چھوڑ کر ہڑتال کرتے ہیں۔ ضرورت ان کے ذہنی علاج کی ہے۔ ان کے لئے خصوصی ادارے قائم کرنا چاہئیں۔ مشکل یہ ہوئی ہے کہ ہم نے جس علاقے میں ایک نئے ملک کے قیام، تشکیل اور ترقی کا تجربہ کرنے کا چیلنج کیا تھا وہ پہلے سے سرداریوں، جاگیرداریوں، زمینداریوں، برادریوں میں بٹا ہوا تھا۔ قبائلی نظام غالب تھا۔ کوشش تو یہ ہونا چاہئے تھی کہ قبیلوں سے وفاداریاں ختم کرکے مملکت سے رشتہ استوار ہوتا۔ ہم سب برابر کے شہری بنتے۔ قانون سب کے لئے یکساں ہوتا۔ سب آئین کی عملداری کرتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہم مزید تقسیم ہوتے گئے۔ نئے قبیلے، نئے گروہ، نئے جتھے، نئے فرقے جنم لیتے رہے۔ تعلیم جو انسانوں میں تقسیم ختم کرتی ہے اس نے بھی نئے پروفیشنل قبیلوں، شعبہ جاتی گروہوں کو پیدا کیا ہے۔

ہم پاکستانی ہونے سے، مسلمان ہونے سے زیادہ ان پروفیشنل قبیلوں پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ اس میں عزت اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ ویسے تو ہم اسے طاقت سمجھتے ہیں لیکن دراصل ہم کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر محفوظ ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ پہلے سرکاری وردیاں انسانوں کو تحفظ کا احساس دلاتی تھیں۔ ان وردیوں کا جو رویہ رہا ہے پھر تقریروں میں اور سوشل میڈیا میں ان وردیوں کا جس طرح مذاق اُڑایا گیا ہے اب تحفظ ان وردیوں میں نہیں بلکہ کالے سفید کوٹوں، طرّوں، دستاروں، ڈبل کیبنوں، کرائے کے حفاظتی دستوں میں محسوس کیا جا رہا ہے۔

کیا یہ احساس پے در پے لگنے والے مارشل لائوں کا نتیجہ ہے یا موروثی سیاسی جماعتوں کے کلچر کا ثمر ہے، یا پروفیشنل تنظیموں، لسانی گروہوں، نسلی جتھوں کا، انتخابی نظام میں بھی منشور، پروگرام کے بجائے قبیلے برادریاں حاوی رہتی ہیں۔ تعلیمی نظام میں یہی حال ہے حتیٰ کہ خیراتی سلسلوں میں بھی ذات پات غالب ہے۔ ناموں کے ساتھ پہلے قبیلوں کے لاحقے کم ہوتے تھے۔ لیکن 1979کے بعد سے قبیلے ذات سے وابستگی نمایاں ہو گئی ہے۔ سیاسی لیڈر، پروفیسرز، پولیس افسر، فوجی افسر، علما، اہلِ قلم سب ذات کا پرچار کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم، ذہانت، صلاحیت، علم و دانش، مہارت، تجربہ سب غیر اہم ہو گئے ہیں۔ کیا کسی نے غور کیا کہ یہ قبیلہ، ذات، برادری ہی پھر مافیا، گینگ کی بنیاد بنتا ہے۔

سب عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔ اس لئے اینکر پرسنز ایک دوسرے سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ ایڈیٹرز اپنی انجمن سے ٹیچرز، لیکچررز بھی، ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فرد کو اپنا حق، انصاف از خود نہیں ملتا اس لئے وہ کسی جتھے کا حصّہ بننے پر مجبور ہے۔ انجمنیں بناکر بھی اگر مذاکرات میٹنگوں سے مسئلے حل ہو جائیں تو نرسوں، ٹیچروں کو پریس کلبوں کے باہر مظاہرے نہ کرنا پڑیں۔ روزگار کی ضمانت ہو تو نوجوان سڑکوں پر نہ نکلیں۔ مزید غور کریں۔ ٹاک شوز بھی قبیلے تراش رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں سے وابستگان ٹاک شوز میں اصول اور آئین کو بالادست رکھنے کے بجائے اپنے لیڈر کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں۔ 18ویں ترمیم نے پارٹی سربراہوں کو آمرانہ اختیارات دے دیے ہیں۔

یہ بھی غور کریں کہ ہمارے انتخابی طریق کار، پارلیمانی نظام بھی قبیلے، برادری اور مافیا کی سرپرستی کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں حکومت سازی میں جتھہ بندی فوقیت حاصل کرتی ہے۔ علاقائیت کو ترجیح ملتی ہے۔ فی زمانہ ترقی کرتے ملکوں میں صدارتی نظام زیادہ کامیاب ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے۔ چین سپر پاور۔ دونوں اقتصادی ترقی حاصل کر رہے ہیں۔ وہاں پارلیمانی نظام نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی ماں برطانیہ مشکلات سے دوچار ہے۔ امریکہ میں ریاستیں یعنی صوبے اپنی جگہ مستحکم، مضبوط ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمانی اور وفاقی نظام ہونے کے باوجود صوبوں میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ کیا ہمیں سوچنا نہیں چاہئے کہ جو نظام ہمیں مزید تقسیم کر رہا ہے۔ جتھہ بندیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ اس میں تبدیلی لائیں۔ جتھہ بندی کے بڑھتے ہوئے رجحان خطرناک ہیں۔ فرد کے لئےبھی ملت کے لئے بھی اور ہمارے ایمان کے لئے بھی۔ آپ کا کیا خیال ہے۔

تازہ ترین