• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزارنے کے بعد جس وضع اور رنگ کی دنیا ہمیں دکھائی دے رہی ہے، بلاشبہ یہ آئیڈیل نہیں ہے۔

اس کے ایک سو ایک ڈھنگ ہنوز سیدھے ہونے والے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کرۂ ارض پر بسنے والوں کا ارتقائی تہذیبی سفر ہزاروں خوبصورتیاں سمیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے، جسے شک ہے وہ بیسویں اور اکیسویں صدی کی علمی، سائنسی اور تہذیبی ترقی کا تقابلی جائزہ پچھلی کسی بھی صدی کی ہمہ جہت ترقی سے کر سکتا ہے۔

جائزہ لینے والی بات یہ بھی ہے کہ کرۂ ارض کے جن خطوں میں حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کی سہولتیں زیادہ میسر رہیں وہیں علمی، سائنسی اور تہذیبی ترقی کی شرح زیادہ رہی اور جہاں جہاں جبر و استبداد کی کارفرمائی رہی وہیں جہالت و منافرت ہنوز زیادہ ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔

بلاشبہ مختلف خطوں میں بڑی بڑی انقلابی تحریکیں اٹھتی رہیں جن کی اثر آفرینی سے انکار ممکن نہیں لیکن قابلِ غور امر یہ ہے کہ ان تحریکوں کو جنم دینے والی عظیم الشان عبقری شخصیات کوئی ماورائی و خلائی مخلوقات نہیں تھیں۔

انسانی عظمت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اولوالعزم انسان ہی ہیں جنہوں نے انسانیت کے صدیوں پر محیط سفر میں اپنی جد وجہد میں پیہم وہ روشنیاں بکھیریں جن سے جبرو استبداد اور تشدد پر ایمان و ایقان رکھنے والی کالی بلائیں کا فور ہوتی چلی گئیں۔

انسانیت کے اس تہذیبی سفر میں بلاشبہ نسلی و طبقاتی جنگیں بھی لڑی گئیں اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مذہب کا بےمحابا استعمال بھی بےدردی سے کیا جاتا رہا لیکن خوبصورت سچائی یہ ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں شعبدہ بازی سے بھری دکانیں بڑی حد تک بند ہوتی جارہی ہیں۔

آج اقوامِ متحدہ کی ممبر 196اقوام میں کتنی ہیں جو اپنا تعارف کسی نسلی، لسانی یا مذہبی بنیادوں پر کروانا پسند کرتی ہیں؟اس حقیقت کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسی دنیا میں ہنوز بہت سے حصے ایسے موجود ہیں جہاں جبر یا عدم برداشت کے نظریے کو مذہبی تقدس کے لبادوں میں اس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے۔

اگر ہم گہری نظر سے غور کریں کہ ایک فرد دوسرے فرد پر، ایک گروہ یا طبقہ دوسرے گروہ یا طبقے پر یا ایک ملک دوسرے ملک پر چڑھائی کیوں کرتا ہے؟ تو پتا چلے گا کہ وہ اپنے تئیں خود ستائی و خود نمائی کی بیماری میں مبتلا ہے۔

اپنی حیوانی طاقت کے زعم میں مبتلا دوسروں کو کمزور خیال کرتے ہوئے ان پر غلبہ پانا اپنا حق خیال کرتاہے۔

قدیمی اصول جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو فراموش کرنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن لفاظی کے طور پر کہیں مذہب، کہیں نظریے، کہیں قومیتی تفاخر اور کہیں پروفیشن کی برتری کے زعم کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا کر پیش کرتا ہے۔

سر سیّد احمد خاں کے زمانے میں ایک صاحب نے کتاب لکھی جس سے سر سیّد آزردہ خاطر ہوئے لیکن اس کے جواب میں سید نے کوئی فتویٰ جاری فرمایا نہ کسی نوع کے تشدد پر اُکسانے والا بیان دیا۔

منطقی استدلال کے ساتھ جوابی کتاب لکھ دی کہ قارئیں یا عامتہ الناس ازخود حقائق جان لیں گے اور گمراہ نہیں ہوں گے مگر مابعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا، نہیں! ہم متنازع کتاب لکھنے والے پر حملہ آور ہوں گے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔

نتیجتاً ہمارے سماج سے منطقی استدلال کی سوچ تو پسپا ہو گئی البتہ پوری قوم نے یہ نظریہ ضرور اپنا لیا ہے کہ اپنے مخالفین کو چھوڑوں گا نہیں، اپنے ہاتھوں سے اس کا گریبان یا گلا پکڑوں گا۔

یہ نظریاتی اپروچ اتنی غالب آئی ہے کہ کوئی بات کر کے جائے کہاں؟ جب ہم نے ’’فلسفۂ عدم تشدد‘‘ کو یوں مسترد کیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اس کی جگہ ’’نظریۂ عدم برداشت‘‘ لے لیتا۔

اس وقت پوری دنیا گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کر دمکتی روشنیوں کی طرف گامزن ہے جبکہ ہماری ترقی کا سفر جہالت سے شعور نہیں بلکہ مزید بڑی جہالت و منافرت کی جانب ہے۔

آج اگر ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں وطن عزیز،بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی 13فیصد نیچے گر چکا ہے یا تعلیم، صحت اور خوشحالی کی جگہ جہالت، بیماری اور غربت کے اشاریوں میں ترقی کر رہا ہے تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

کس قدر شرم کی بات ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں11فیصد بچیاں غربت کے تحت اسکولوں سے باہر ہیں تو پاکستان میں یہ شرح 27 فیصد ہے۔

اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ وطن عزیز کے تہذیبی شہر لاہور میں پڑھی لکھی خیال کی جانے والی وکلا کمیونٹی کا ایک طبقہ ڈاکٹر کمیونٹی کو سبق سکھانے کے لیے دل کے اسپتال پر حملہ آور ہوا۔ کسی نے درست کہا ہے کہ آج اگر دشمن ملک کی فوج لاہور پر قابض ہو جائے، ایسی حرکت تو وہ بھی نہیں کرے گی۔

ایسے میں درویش خود کو پاکستانی کہنے پر فخر محسوس نہیں کر رہا ہے۔ یہ کونسی مسلمانی ہے اور کونسا ’’دو قومی نظریہ‘‘ہے؟ گویا وکلا کمیونٹی الگ قوم اور ڈاکٹر کمیونٹی الگ قوم ہے؟

خدا کے بندو! ذرا سوچو! کسی بھی فرد، گروہ یا قوم میں جب ’’عدم برداشت‘‘ آئے گی تو اس کا لازمی نتیجہ تشدد کی صورت برآمد ہوگا۔ کسی بھی فرد، گروہ یا قوم سے اگر ’’عدم تشدد‘‘ کا اصول منوانا ہے تو لازم ہے کہ اس میں دوسروں کے لیے برداشت اور رواداری کی خو پیدا کریں، جو کہ اعلیٰ ظرفی اور تہذیب و شائستگی کے بغیر ناممکن ہے۔

اس میں اختلافِ رائے کے باوجود دوسروں کو عزت دینا پڑتی ہے، دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرنا پڑتی ہے، جو 70 سال پہلے پیدا کی نہ آج کی جا رہی ہے۔

تازہ ترین