• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ سے ناواقفیت کسی بھی شہری کی سوچنے کی صلاحیت کو مجروح کر سکتی ہے۔ یہ بات نامور دانشور اور ادیب طارق علی نے لاہور کے ادبی میلے میں اپنے کلیدی خطاب میں کہی۔ ان کا دکھ یہ بھی تھا کہ پاکستان اور بھارت نے ان لوگوں کو لئے کوئی یادگار تعمیر نہیں کی جو 1947 کے فسادات میں مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ کوئی 20 لاکھ کے لگ بھگ جانیں ضائع ہوئیں اور ان کی یاد کو محفوظ رکھنے والی کوئی یادگار موجود نہیںہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہمیں تاریخ کی ضرورت ہے۔ نوجوان تو یہ بھی نہیں جانتے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کبھی ایک ملک بھی تھے۔ طارق علی نے کہ جو بائیں بازو کی عالمی تحریک میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں دوسرے اہم موضوعات کو بھی چھیڑا لیکن یہ جو تاریخ سے آنکھیں چرانے والی بات ہے تو میں بھی اسے ایک المیہ سمجھتا ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بیشتر جامعات میں تاریخ کا شعبہ تک نہیں ہے۔ اسکولوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس کا تجزیہ کرنے والے سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کئی استادوں نے مجھے بتایا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا؟اس کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا۔ جنوبی ایشیا اور قیام پاکستان کے باب میں، پاکستان اور بھارت، دونوں ملکوں کے نصاب میں نفرت انگیز مواد موجودہے۔ حقائق کو تعصب اور جانب داری کے میلے شیشے سے دیکھنے کا عمل جاری ہے۔
موجودہ حالات کا خاص طور پر تقاضا ہے کہ ہم اپنی آزادی کی جدوجہد اور قیام پاکستان کے حالات و واقعات کو پوری ایمانداری کے ساتھ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ انتہا پسندی اور کٹر پن کے تناظر میں غور و فکر اور مکالمے کی روایت کافی کمزور ہے۔ پھر بھی، روشنی کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے۔ امن کی آشا جیسی تحریکوں نے کچھ سوالات تو لوگوں کے ذہنوں میں بیدار کئے ہیں۔ اپنی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے، منٹو ہمارے ساتھ ہے اور اس کے افسانوں میں ہم نے فسادات کی دیوانگی کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ کراچی اور لاہور کے ادبی میلوں میں ان تخلیقات کا باالم ذکر ہوا جن میں تقسیم کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ انتظار حسین ہجرت کی اپنی داستان کے ساتھ موجود تھے۔ عبداللہ حسین کی شکل میں اداس نسلیں، جیسے ساتھ ساتھ چل رہیں تھیں۔ انفرادی زندگیوں میں تقسیم نے کیسے ہلچل مچائی، اس کا ایک اشارہ ہمیں گلزار کہانی میں ملا۔ وہ کراچی کے ادبی میلے کے سب سے درخشاں مہمان تھے لاہور آئے اور کراچی کے میلے کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ جو وضاحت انہوں نے پیش کی اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ جب وہ اپنے آبائی گاﺅں دینا گئے اور اس گھر میں قدم رکھا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے تو ان کے جذبات میں اتنا ہیجان پیدا ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکے اور بے چینی کے عالم میں انہوں نے واپس بھارت جانے کا فیصلہ کر لیا۔ واہگہ کی سرحد کو انہوں نے پیدل پار کیا۔ طارق علی نے تو اپنی بات لاہور کے گزشتہ ہفتے کے میلے میں کہی لیکن دو ہفتے ہوئے جب کراچی کے میلے میں یہ موضوع، بغیر کسی پروگرام کے اچانک سامنے آگیا ۔ ہوا یہ کہ اختتامی تقریب میں اس کتاب کے نام کا اعلان کیا جانا تھا جسے 2012 کی انگریزی زبان میں پاکستان کی سب سے اچھی کتاب کا انعام دیا گیا ہو۔ اس کتاب کا تعلق غیرافسانوی ادب سے تھا۔ بہر حال یہ انعام اشتیاق احمد کی پنجاب پر لکھی گئی تحقیقی کتاب کو ملا۔ اس میں 1947 کے عظیم انسانی المیے کی تفصیل ہے۔ اشتیاق احمد لاہور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی لی اور وہیں سیاسیات کے پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے بھی رہے۔ اپنی کتاب کےلئے انہوں نے برطانوی حکومت کی اب تک خفیہ رہنے والی دستاویزات سے بھی استفادہ کیا اور لوگوں کی آپ بیتیوں کو بھی جمع کیا۔ امریتا پریتم نے وارث شاہ سے جو سوال پوچھا تھا، ویسے سوال بھی اٹھائے۔ میرے خیال میں یہ کتاب اسلئے بھی اہم ہے کہ پنجاب میں 1947 میں جو کچھ ہوا اس کا ایک گہرا تعلق اس رشتے سے ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان قائم ہوا اور جو اب بھی ہمارے قومی سلامتی کے تصورات پر حاوی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کتنی سنجیدگی سے اپنی تاریخ کے اس پیچیدہ دور کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور اس عذاب سے کیسے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں جو ہمارے دل و دماغ پر آسیب کی طرح سوار رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، اب جو ہم پر گزر رہی ہے اس کو سمجھنے کےلئے ہمیں اپنی ماضی کے اندھیرے میں فکر کی مشعل ہاتھوں میں تھامے، ان راستوں کا کھوج لگانا ہے کہ جو ہمارے نئے سفر کی نشاندہی کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حقائق کو جھٹلایا جائے۔ یا اذیت ناک یادوں اور تجربات کو رد کیا جائے۔ سیدھی سی بات ہے اگر ہم اپنے آپ کو ایک بند گلی میں محسوس کر رہے ہیںتو کوئی نیا دروازہ تو کھولنا پڑے گا۔ یہ جو فرقہ واردیت کا زہر ہماری رگوں میں سرایت کر رہا ہے یہ جوانتظامی اور سماجی نظام کی ابتری ہے تو یہ تو وہ سحر نہیں ہے جس کی آرزو لے کر ہم تاروں کی آخری منزل کی طرف چلے تھے۔میں قیام پاکستان کے بارے میں بات کر رہا ہوں طارق علی نے جو نوجوانوں کا ذکر کیا کہ انہیں بنگلہ دیش کا علم نہیں تو یہ بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے کہ ہم خوف کے مارے اپنی تاریخ سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں اپنے چند بنیادی خیالات اور فیصلوں کو رد کرنا پڑے۔ یوں بھی ہمارا معاشرہ نئی فکر اور نئے تجربات کو آزمانے سے ہچکچاتا ہے۔ ان حالات میں تاریخ سے نتیجہ خیز اور سود مند وابستگی کا عمل کہاں سے شروع کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ اس کام کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہونا ہے۔ ہماری درسی کتابوں میں کیسی فضول باتیںبھی شامل ہیں، اس پر کافی مواد موجود ہے۔ بار بار یہ وعدے کئے گئے ہیں کہ نصاب کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے گا تاکہ طالب علموں کی ذہنی صلاحتیں اجاگر ہوںاور وہ عملی زندگی کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی قوت حاصل کر سکیں لیکن تعلیم کا جو حال ہے اس کی ایک تصویر شہزاد رائے اپنے جیو کے پروگراموں میں ہمیں دکھا رہے ہیں۔ ایک اور سطح پر یہ وقت قومی مسائل پر گفتگو کا موقع فراہم کر رہا ہے اس کا تعلق آنے والے انتخابات سے ہے۔ بالآخر یہ ہمارے سیاسی رہنماﺅں کی ذمے داری ہے کہ وہ اجتماعی ترقی کی راہوں کا تعین کریں اور پاکستان کو اس گرداب سے نکالیں جس میں وہ علم کے فقدان کی وجہ سے گرفتار ہے۔
نصاب کے ضمن میں ایک حیرت انگیز مثال میرے سامنے ہے۔ چند ہفتوں پہلے میں نے جرمنی اور فرانس کے درمیان دوستی کے معاہدے کی پچاسویں سالگرہ کا ذکر کیا تھا اس سلسلے میں کراچی میں جرمنی کے ثقافتی مرکز میں ایک سیمینار ہوا جس میں دونوں ملکوں کے سفارتی نمائندوں کے علاوہ جرمنی سے بلائے گئے ایک اسکالر بھی تھے۔ جرمنی اور فرانس کی دشمنی صدیوں زندہ رہی اور دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے ملکوں نے ایسی تباہی دیکھی کہ تاریخ میں ان کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس جنگ کے بعد جب دوستی کا سفر شروع ہوا تو اس میںکئی دشواریاں پیدا ہوئیں۔ خاص طور پر فرانس میں، جرمنی کےلئے پائی جانے والی نفرت کی جڑیں گہری تھیں۔ تو اس سیمینار میں کسی نے دونوں ملکوں میں تاریخ کی درسی کتابوں کے بارے میں سوال پوچھا اور بھارت اور پاکستان کا حوالہ بھی دیا۔ اب سنئے کہ جواب کیا تھا۔ فرانس کے کونسل جنرل، ایک درسی کتاب ساتھ لائے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ اس مقام تک پہنچ گئے ہیںکہ دونوں ملکوں کے اسکولوں میں تاریخ کی درسی کتابیں ایک ہی ہیں۔ صرف زبان کا فرق ہے۔ مواد لفظ بہ لفظ مشترک ہے۔ تصویریں بھی وہی ہیں یہ کتابیں دونوں ملکوں کے ماہرین نے مل کر لکھی ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ کچھ دیر تک مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ ہم صرف اپنے ملک کی تاریخ ہی سے نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم آنکھیں کھول کر زمین کو، فلک کو اور مشرق سے ابھرتے ہوئے سوج کو دیکھ سکیں۔
تازہ ترین