• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منیر نیازیؔ کا مصرعہ یاد آیا:
آدمی تنہا کھڑا ہے ظالموں کے سامنے!
اور یہاں ایک آدمی تھا ڈاکٹر انور سجاد، پناہ گزیں ہوا وہ ’’استعارہ‘‘ کی خندق میں، سچ بولنا چاہتا تھا، نہ بول سکا، اپنے ستوئوں کی پوٹلی اٹھائی، جانے کہاں چلا گیا، ہاں ! جاتے جاتے اتنا کہنے سے باز نہ رہ سکا: ’’دانش وروں نے کیا کیا ہے؟ تمہیں ہر قبول شدہ اصول، مروجہ دستور اور واقعہ کو چیلنج کرنا ہے، اس کی تفسیر کرنا ہے، تمہیں انہیں ایک نیا تناظر دینا ہے لیکن دانشور تو چائے کی پیالی میں طوفان لا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کا ایک بے عملی کا کردار ہے اور کچھ نہیں، وہ ابھی صدیوں پرانی کاہلی اور بے حرمتی سے آزاد نہیں ہوئے۔‘‘
چنانچہ واقعی انگلیاں اپنی فگار اور خامہ اپنا خونچکاں ٹھہرنے پہ مجبور ، مقید اور بے بس!
’’ہر قبول شدہ اصول، مروجہ دستور اور واقعہ کو چیلنج‘‘ کرنے کا خواب دیکھنے سے بھی آنکھیں انکاری ہوئیں۔زبانیں گنگ، ماضی کی جرأتیں خاموش،ترقی پسند سچے لوگ مرکھپ گئے، شور و غوغا کے علمبردار پاکستان کے آسمانوں پہ چھاگئے، تاریخ کی روشن مثالوں کو انہوں نے اپنے نفس پرستانہ تقدس کے آئینوں میں استعمال کیا۔ عامتہ الناس عقیدے کی خودساختہ شدتوں میں پیدا ہورہے اور مررہے ہیں اور؎
آدمی تنہا کھڑا ہے ظالموں کے سامنے!
دانشور دوستوفسکی، میکسم گورکی، ٹالسٹائی، سعادت حسن منٹو، علامہ نیاز فتح پوری، قرۃ العین حیدر تو ہیں نہیں، ہر قبول شدہ اصول، مروجہ دستور اورواقعہ کو کیونکر چیلنج کریں، کیسے جانیں، ہتھیلی پہ رکھیں! یہاں تو اتنا کہنا شاید شہادت گاہ ِ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہو۔ یعنی ہے کوئی پاکستان میں دانشور ’’لارڈ برینڈرڈ رسل‘‘ ، جو پاکستان میں ’’مذہبی ویت نام‘‘ کیخلاف عَلَم اٹھائے، لاہور کے چیئرنگ کراس پہ آکھڑا ہو، یہاں دانشمندوں (Wise People) کی عدالت لگائے، سچائی کھوجنے اور متعین کرنے کی آزادی کا مطالبہ کرے! آپ نےمیرے عزیزترین قلمکار! سو فیصد صحیح کہا ، ’’ہم ہتھیار نہیں ڈالا کرتے‘‘ مگر اس پاکستانی ریاست اور نا رمل زندگی کو قراردادِ مقاصدکے بعض حامیوں نے جن میں اب بیسیوں مذہبی تنظیمیں، بین الاقوامی مذہبی رابطے، سیاست کرتی وسیوں مذہبی جماعتیں، ان کے اکثر و بیشتر مسلح نوجوان گروہ اور تمام پیروکار شامل ہیں، پہلے روز سے ہی معمول کی زندگی گزارنے سے روک دیا تھا، وہ ریاست کو بتا رہے تھے ’’یہ پاکستان دراصل اس لئے بنا ہے اسے پہلے اپنی دھرتی پہ اور پھر پوری دنیا میں یہ نافذ کرنا ہے‘‘ اورعوام کو انہوں نے انتباہ کردیا تھا ’’ان حدود سے تمہاری زندگیاں باہر نہ جائیں‘‘ ان کے ساتھ ساتھ ملایا ان طاقتوروں نے جن پر کلام آپ کے پر جلا سکتا ہے۔ لاہور میں ہمارے دل کے ٹکڑے لہو میں نہلا دیئے گئے۔ پاکستانی عوام کے دینی اصول و قواعد کے اخلاق و تناظر سے کلیتاً بے خبر تھے اور بے خبر ہیں، نے اپنا آپ اس شدت پسند مذہبی یلغار کے سیلاب کے حوالے کر دیا جس کے اترتے اترتے آج پاکستان ایک طرف ’’بین الاقوامی شکوک‘‘ اور دوسری طرف ان مذہبی عناصر کے حوالے ہوچکا جنہوں نے ملک کی سلامتی اور پاکستانیوں کی اندرون ملک اور بیرون ملک اکثریت کی زندگیاں متوازن طرزِ حیات سے چھین لی ہیں۔ 1980 ءکی افغان جنگ ’’امریکہ روس‘‘ کشمکش تھی یا ’’عالم اسلام اور عالم کفر‘‘ باہم برسرپیکار تھا؟ امریکہ، عراق اور افغانستان کو زیر نہیں کرسکے گااور افغانستان اس کا مدفن بنے گا؟ وزیرستان، سوات، دیر، مہمند ایجنسی، باجوڑ اورپشاور کے پاکستانی اپنے ہی وطن میں مہاجر بنتے اور کہلانے پر کیوں مجبور ہوئے؟ یہ ساری تباہی و بربادی امریکہ اورمشرف کا جرم ہے؟ پاکستان کے عظیم ترین دوست ملک چین میں بھی بزعم خود ’’خدا کے محافظ‘ ‘ ان لوگوں نے ’’فساد فی الارض‘‘ پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؟ روس امریکہ سے 1980ءکی شکست کا انتقام لینے کیلئے افغانستان کے ذریعے پاکستان کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے؟
1980 ءکے ’’افغان جہاد‘‘ کے کھوبے سے برآمد شدہ یہ سب متذکرہ سوالات آج بھی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں، ان کے اولاً تومکمل حقائق پر مبنی جوابات مل نہیں سکتے، مل جانے پر انہیں تحریر میں لانا کارے دارد، دانشور جان ہتھیلی پہ رکھ کے ایسا کر بھی دے تب بھی بااختیار لوگوں کی شق سخن کے تیشے سے بچت ناممکن، گویا جوابات آج بھی نہیں ہیں لیکن نتائج نے پاکستان کی چھاتیاں خشک کردی ہیں، اسکے کھیت کھیلانوں کی ہریالیاں سوکھ گئیں، پاکستان ریاستی سطح پر ان سے محفوظ رہ گیا، پھر بھی یاد رہنا چاہئے انہوں نے وطن کے فرزندوں کو ’’شہید‘‘ کہنے سےانکار کردیا تھا۔ ووٹ سے تبدیلی کو یہ سر بازار چیلنج کرتے اور دھمکی دیتے ہیں ’’بھلے ہمیں ووٹ نہ ملیں حکومتیں ہم پھر بھی گرا سکتے ہیں‘‘،تاریخ اپنے سفر کے آخری نتیجے کے طور پر انہیں سرخرو کرتی ہے یا فطرت کے قوانین کو؟ ہمارا ایمان فطرت کے قوانین کی سرخروئی پر ہے۔ ہوسکتا ہے غالب امکان یہی ہے ہم انسانیت کی اس جیت کا سہانا منظر نہ دیکھ سکیں۔ بہرحال دہشت گردی کے مظلوم خون کے پہلے قطرے سے بالآخر پاکستان میں ترقی پسندی کا جہان خیر و فلاح ہی جنم لے گا۔
پس نوشت
پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخی رہنما بیگم نصرت بھٹو نے ایوب خان سے لے کر ضیا الحق تک، ظلم و جبر اور عوام کی عزت و حقوق کی ایک ناقابل فراموش جنگ لڑی۔ پاکستان کی داستان میں یہ چندایک تابندہ باب کے طور پر پڑھی اور دہرائی جاتی رہے گی۔ 23مارچ گزر چکا ، بیگم نصرت بھٹو کی یاد میں، سوائے بشیر ریاض کے ایک مضمون کے، صوبہ پنجاب میں نہ کہیں کوئی تقریب منعقد ہوئی، نہ کسی لیڈر نے کوئی بیان جاری کیا۔ نہ ’’ٹی وی ٹاک شو‘‘ گروپ کے کسی ایک فرد نے اس حوالے سے کسی گفتگو میں حصہ لیا یا اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر بیگم نصرت بھٹو کے تذکرے کی گنجائش نکالی۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو رجعت پسندوں کو للکارے ماریں، جنوبی پنجاب کے غریبوں کو جگائیں، بہت ہی حوصلہ افزا طلوع صبح کی جدوجہد ہے۔ ہاں مگر چیئرمین ایک حقیقت کو آہستہ آہستہ اپنے ذہن کے تجزیاتی کمپیوٹر میں ریکارڈکرتے جائیں۔ پنجاب پیپلزپارٹی (سنٹرل) کی قیادت نہایت منفی طرز سیاست کی علمبردار، پیروکار اور کاشتکار ہے۔ یہ عوام اور پی پی کے جانثاروں کی حوصلہ شکنی اور نفی کا سب سے بڑا سبب اور وجہ ہے۔ وہ اس ساری قیادت کو مکمل طور پر عبور کرتے ہوئے پنجاب کے اس حصے میں بھی براہ راست اپنے ورکروں اور عوام سے مخاطب ہوں۔ دوسری صورت میں اس حصے میں پارٹی رہنمائوں کی اکثریت اپنی سیاسی خودسری میں چیئرمین کی سیاسی جدوجہد کا جنازہ نکال دے گی۔
تازہ ترین