• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور لہو لہو ہے، اور پورا ملک، اور دعوے ہیں، اور دعوے ہیں۔ نتائج؟ معصوم، بے گناہ بچوں کی لاشیں اور آہ و بکا کرتی مائیں۔ ہر کچھ دن بعد۔ انتہا پسندجہاں چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ قوم اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتی ہے، سوگ مناتی ہے اور دعوے سنتی ہے، توقع باندھتی ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ کچھ کارروائیاں ہوتی ہیں، ہوتی ہونگی۔ کچھ دہشت گرد پکڑنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ، پکڑے جاتے ہوں گے ۔مگر پھر حملہ ہوتا ہے، معصوم لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے، لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے ہیں، مائیں سینہ کوبی کرتی رہ جاتی ہیں۔ پھر دعووں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ آپریشن ہوتا ہے، دہشت گرد پکڑنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اور پھر کوئی حملہ ہوتا ہے۔ پھر خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ سب آپریشن ، لگتا ہے، دھرے رہ جاتے ہیں۔
یہ ہو کیا رہا ہے؟ کوئی جوابدہ ہی نہیں لگتا۔ لاہور ہو یا اسلام آباد، پشاور ہو یا چارسدہ۔اور بھی کئی مقامات۔ سب ہی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا، سب ہی جگہ لوگوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں۔ اس طرح کے دعوے بھی سننے میں آتے ہیں کہ ممکنہ دہشت گردی کی اطلاع پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ مگر یہ اطلاعات، حیران کن بات یہ ہے، انتہا پسندوں کے حملوں کے بعد ہی سنائی دیتی ہیں۔ اگر یہ اطلاع کہ کہیں حملہ ہوگا انٹیلی جنس اداروں کو مل جاتی ہیں تو پھر کیا ہونا چاہئے؟ کیا ہوتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ متعلقہ ادارے پوری تندہی سے ان اطلاعات کی تحقیق کریں اور دہشت گردوں کو گرفتار کریں، معصوم لوگوں کو انکے حملے سے بچائیں۔ مگر ہوتا کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ دہشت گردجب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ لاہور کا سانحہ بھی اُن میں سے ایک ہے ، جیسے دوسرے بہت سے سانحے ہیں۔ جہاں ہم نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں۔
یہ کہ ذمہ دار کون ہے؟ وہ تو بہت واضح ہو گیا اسلام آ باد میں، اس ملک کے دارالحکومت میں، پارلیمان کے سامنے۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین راولپنڈی کے لیاقت باغ سے چل کر اسلام آباد کے دل تک پہنچ گئے، بلا روک ٹوک انہوں نے اتنا فاصلہ طے کیا اور کسی نے انہیں روکا نہیں۔ اور بعد میں بھی جب وہ دارالحکومت میں توڑ پھوڑ کررہے تھے، آگ لگا رہے تھے، کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اس علاقے میں ہوا جو ملک کی اہم ترین جگہ ہے، جہاں پارلیمان کے علاوہ اور بھی بہت سے حساس ادارے ہیں۔ وہاں کیا ہوتا رہا، سب نے دیکھا کہ ایک بے قابو ہجوم املاک کو آگ لگاتا رہا، تباہ و برباد کرتا رہا۔ کروڑوں روپے کی املاک، میٹرو ٹرین کے اسٹیشن اور جو کچھ ان کے راستے میں آیا اسے تباہ کردیا۔ یہ کیا ہوتا رہا؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کس سے پوچھیں؟ کون جواب دے گا؟ ایسی کیا صورتِ حال اسلام آباد میں ہوگئی اور کیوںکہ ان دو چار ہزار افراد کو قابو میں نہیں کیا جا سکا؟ اور اس کے بعد بھی جو کچھ ہوا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک آپریشن کا اعلان کیا گیا۔ اب یہ پنجاب میں ہوگا، کراچی اور فاٹا میں تو ہو ہی رہا ہے۔ اور یہ مطالبہ بہت عرصے سے ہو رہا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف پنجاب میں بھی آپریشن کیا جائے۔ یہ بات کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آئیگی کہ دہشت گردی کی اکثروارداتیں گزشتہ کچھ عرصے میں پنجاب میں زیادہ ہوئی ہیں، مگر وہاں آپریشن کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اب عسکری قیادت نے ،کل کے لاہور کے سانحہ کے بعد ایک آپریشن کا اعلان کردیا اور یہ آپریشن شروع بھی ہو گیا ہے۔ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ گزشتہ دو دنوں میں چار اجلاس ہوئے، دو کی صدارت وزیراعظم نے کی اور دو کی بری فوج کے سربراہ نے۔ کوئی مشترکہ اجلاس نہیں ہوا۔عجب بات ہے !! وزیراعظم نے قوم سے خطاب بھی کیا مگرآپریشن کا حوالہ بھی نہیں دیا۔ کیوں خطاب کیا یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ۔ صرف دہشت گردوں کی مذمّت سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کو بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنی تقریر میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ کیا آپ کے ارد گرد موجود لوگ آپ کو یہ نہیں بتا تے کہ اس طرح کی تقریر اور رویے سے قوم میں مزید مایوسی پھیلتی ہے۔ اگر ملک کا وزیراعظم اس آپریشن کا تذکرہ بھی نہیں کرے جو شروع بھی ہو گیا ہے تو لوگ تو یہ کہیں گے کہ یا تو آپ بے اختیار ہیں، یانااہل۔
دوسری طرف بھی حالات بہت بہتر نہیں ہیں۔ صرف پنجاب ہی نہیں، پورا ملک دہشت گردی کا شکار ہے کافی عرصے سے۔ مگر کیا متعلقہ ادارے اس سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، خواہ لاہور ہو یا پشاور؟ مانا کہ دہشت گردوں کے حملے روکنا ممکن نہیں، مگر متاثرین کو طبی امداد تو فراہم کی جا سکتی ہے۔ کیا ایسا ہوسکا؟ جو کچھ ہوا وہ یہ تھا ۔ایک مرحلے پر اسپتالوں نے زخمیوں کو لینے سے انکار کردیا۔ ذرا تصور کریں، جائے حادثہ سے ایک شدید زخمی کو لوگ ایک اسپتال لیجائیں اور وہاں ان سے کہا جائے کہ وہ کسی دوسرے اسپتال میں جائیں ۔ کیا یہ ممکن ہے؟ کیسی اذّیت کا سامنا لوگوں کو کرنا پڑا۔ شد ید زخمیوں کوایک اسپتال سے دوسرے اسپتال لے جانا، دل پہ کیا گزرتی رہی ہوگی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس دوران ہی وہ زخمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو۔ پورے ملک میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ کسی بھی جگہ، خواہ کراچی ہو یا اسلام آباد، پشاور ہو یا لاہور، کہیں بھی ایسے اسپتال ، ٹراما سینٹر،نہیں ہیں جہاں کسی بڑے حادثے کے متاثرین کو طبی امداد فراہم کی جاسکے۔ کراچی میں برسوں پہلے ٹراما سینٹر کی ایک تجویز پیش کی گئی تھی، مگر وہاں ایک نجی اسپتال بن گیا۔ کیا حکومت کو یہ اندازہ نہیں کہ ایسے انتظامات، پاکستان جیسے ملک میں، جو دہشت گردی کا شکار ہے، دوسرے بہت سے کاموں سے زیادہ اہم ہیں۔ اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جو لوگ گرفتار کئے جائیں انہیں جلد از جلد عدالتوں میں پیش کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے، عبرتناک سزا تاکہ دوسروں کو سبق حاصل ہو۔ چرچل نے کہا تھا اگر برطانیہ کی عدالتیں کام کررہی ہیں تو وہ جنگ جیت لے گا۔ عدالتوں کو کام کرنے دیا جائے، اور جہاں خامیاں ہیں انہیں دور کیا جائے، مثلاً تحقیقات کی خامیاں اور استغاثہ کی کمزوریاں۔ یہ اگر دور ہو جائیں تو عدالتوں سے مجرموں کو جلدی سزا دلوائی جا سکتی ہے۔ سزا عدالت کو ہی دینی چاہئے۔ یہ کام پولیس کا نہیں کہ جسے مجرم سمجھے اسے نام نہاد پولیس مقابلے میں ہلاک کردے۔ ماضی میں بھی یہ رویہ درست ثابت نہیں ہوا، آئندہ بھی اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ انصاف دنیا کے معروف طریقے سے ہونا چاہئے، غیر قانونی رویے سے منفی نتائج ہی نکلیں گے جو ملک کے مفاد میں ہیں نہ عدل کے ترازو پر پورے اترتے ہیں۔
تازہ ترین