• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یورپ جس طرح لہو رنگ کیا گیا اس کی حمایت میں ایک لفظ بھی تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ اور ان خون آشام واقعات کی روک تھام کی غرض سے مہذب دنیا کو ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے کہ جو کہیں بھی غیر مہذب اقدامات کی بیخ کنی کر دے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ حقیقت عیاں ہو گی کہ ان واقعات میں افرادی اور نظریاتی طاقت کے سوتے افریقہ اور عرب دنیا سے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان افراد کی پیدائش یورپ میں ہی ہوئی۔ مگر یہ وہاں کے معاشرے کے لئے سوتیلے رہے اور معاشرہ ان کے لئے سوتیلا رہا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ تو اس کا جواب واضح ہے کہ استحصال۔ افریقہ میں کہنے کو تو نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہو گیا غیر ملکی طاقتوں نے آزادی دے دی مگر حقیقت اس کے برخلاف بہت خوفناک ہے۔ افریقی ممالک کو یورپ نے اپنی نوآبادیات بنا کر رکھا ہوا تھا۔ غیر ملکی قبضے کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ 1958ء میں گنی کے سربراہ سیکو نے غیر ملکی قبضے کے خاتمے کی بات کی تو جواب بہت تشدد آمیز دیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ گنی کی تمام تنصیبات اور دولت غیر ملکی قبضے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا جو کچھ وہ سمیٹ سکتے تھے۔ وہ سمیٹ کر لے گئے۔ باقی اسکول ، نرسریاں ، حکومتی عمارات گاڑیاں ، علمی تحقیقاتی ادارے ، کتابیں، ادویات، ٹریکٹرز غرض سب کچھ تباہ کر دیا۔ ذخیرہ شدہ خوراک جو گوداموں میں موجود تھی جلا دی گئی۔ یا زہر آلود کر دی گئی۔ گھوڑے اور گائیں تک ہلاک کر دی گئیں۔ یہ کھلا پیغام تھا دیگر افریقی قوموں کے لئے کہ اگر حقیقی آزادی طلب کی گئی تو اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ غلام افریقہ سخت خوفزدہ ہو گیا۔ ٹوگو کے پہلے منتخب صدر سلونیس نے یہ تجویز مان لی کہ غیر ملکی قبضے کے دوران کئے گئے "تعمیراتی اقدامات " کے حوالے سے ٹیکس ادا کیا جائے گا۔ یہ ادا کیے جانے والا ٹیکس ملکی بجٹ کا 40% بنا۔ صدر سلونیس نے ابتر معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جبری مسلط کردہ غیر ملکی کرنسی ایف سی ایف اے کی جگہ اپنی کرنسی پرنٹ کروانے کی ٹھان لی۔ نتیجتاً اس کے تین دن بعد صدر کوسابق یورپی فوجی کے ذریعے قتل کرا دیا گیا۔ اور آج یہ صورتحال ہے کہ 14 افریقی ریاستیں یورپی نو آبادیاتی قبضے کے ساتھ ایسے معاہدوں میں جڑی ہوئی ہیں کہ جس کے بعد ان کی آزادی کا تصور سوائے بھیانک مذاق کے اور کچھ نہیں۔ ان افریقی ریاستوں میں سے جس کسی سیاستدان حکمران نے یورپی اثر سے نکلنے کی کوشش کی اس کا انجام عبرتناک ہوا۔ گزشتہ 52 برسوں میں ان ریاستوں میں 45 بغاوتوں میں رہنما یا تو مارے گئے یا پھر نشان عبرت بنا دیئے گئے۔ جن معاہدوں کے ذیل میں ان ریاستوں کو "آزاد" کیا گیا ان کی شرائط کڑی ہیں۔ یہ 14 ممالک آج بھی قبضے سے حاصل شدہ فوائد کے نام پر یورپی قوت کو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ یہ پابند ہیں کہ اپنے 85% زر مبادلہ یورپی ملک کے مرکزی بنک کے پاس رکھیں اور صرف 15% اپنے اخراجات میں لائیں۔ بقایا 85% قابض کی مرضی سے استعمال ہو سکتا ہے ۔ اور ایسی مرضی وہ کبھی نہیں دکھاتا۔ لہٰذا تمام رقم قبضے میں ہی رہتی ہے۔ تمام معدنی دولت جیسے تیل اور گیس یورپ کے قبضے میں ہے وہ ان کا استعمال جیسے چاہے کر سکتا ہے۔ حکومت کے ٹھیکے صرف نو آبادیاتی طاقت کو دیئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا پانی ، بجلی ، ٹیلیفون ، ٹرانسپورٹ ، بندرگاہیں ، بڑے بینک، تعمیراتی ادارے سب پر نوآبادیاتی طاقت کا ہی قبضہ ہے۔ نوآبادیاتی طاقت نے یہ اختیار بھی رکھا ہوا ہے کہ اگر ان کے مفادات کے خلاف کام ہو تو وہ فوجی مداخلت کر سکتا ہے۔ اور وہ ایسا کرتا بھی ہے۔ اس کی فوجی چھائونیاں تمام ممالک میں موجود ہیں ۔ ان تمام ممالک کی تعلیمی اور سرکاری زبان صرف فرانسیسی ہو سکتی ہے۔ یہ ممالک اپنی کرنسی کا اجراء نہیں کر سکتے اور صرف جبری مسلط کردہ ایف سی ایف اے کو اپنی سرکاری کرنسی بناتے ہیں۔ ان ممالک کے لئے لازم ہے کہ یورپ کی نوآبادیاتی طاقت کو مکمل معاشی کارکردگی کی رقوم دیتے رہیں۔ نوآبادیاتی طاقت کی اجازت کے بنا کسی دوسرے ملک سے فوجی معاہدہ نہیں کر سکتے۔ اس استحصال کے نتیجے میں افریقہ اور شمالی افریقہ میں بسنے والے مسلمان اور غیر مسلم اپنے تمام مصائب کا ذمہ دار یورپ کو تصور کرتے ہیں۔ اب عرب کی تازہ ترین صورتحال کی جانب چلتے ہیں۔ مگر اس سے قبل افغانستان پر ذرا نظر ڈال دیں۔ روسی افواج کی آمد سے روانگی تک جو حالات رہے سو رہے مگر اس کے بعد ادارے اور کوئی مرکزیت نہ ہونے کے سبب سے افغانستان وادی کشت و خون آج تک بنا ہواہے۔ جس کے سب سے زیادہ اثرات وطن عزیز پر پڑے۔ اس تجربے کے بعد کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ جب عراق ، لیبیا، اور شام کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی تھی تو اس کے نتائج سے دنیا باخبر نہیں تھی۔ افغانستان کے بعد یہ سمجھنا بچپنا ہو گا۔ جب النصرت فرنٹ اور داعش کی مدد کی جا رہی تھی تو اس کے اثرات سے لاعلمی کیا ممکن ہے۔ یقیناً نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اس کے اثرات کو عالم عرب یا عالم اسلام تک محدود رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر کیا یہ ممکن تھا یقینا نہیں۔ افریقہ اور شمالی افریقی ریاستوں کی صورتحال اور عرب ممالک کی خانہ جنگی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ جہاں تعلیم ، معیشت ، فوج، سب پر غیر ملکی قبضہ ہو کوئی جمہوری سیاسی جدوجہد ان حالات کے خلاف نہ کی جا سکتی ہے تو ایسے میں ذہنوں کو گمراہ کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ پھر القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کوئی بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ میں اس کا جواز پیش نہیں کر رہا۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ظلم کے بعد انصاف کی امید قائم نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ سوچنے سمجھنے پر تو خود استحصالی طاقتوں نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اور قانونی حکومتوں کے خلاف کھلم کھلا دہشت گرد عناصر کی مدد کی جا رہی ہو تو دہشت گرد عناصر ہی مضبوط ہوں گے۔ چاہے مہاجرین کو ترکی تک محدود کر دیں۔ نئے ذرائع بن جائیں گے۔ جب تک حقیقی استحصال کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک مہذب دنیا خطرے میں رہے گی۔ مگر لالچ بری بلا ہے۔
نوٹ۔ حسینہ واجد نے پاکستانی فوج کے خلاف اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ راقم نے آج سے دو سال قبل عبدالقادر ملا کی شہادت کے وقت ہی تحریر کیا تھا کہ ان کے نزدیک مرکزی ملزم پاکستان کی فوج ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیش کی حکومت کو ابھی سے روک دیا جائے۔ ورنہ وہ بڑھتی جائے گی۔
تازہ ترین