• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے علاقے میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جس وقت میّت کی چارپائی گھر سے اٹھائی جارہی ہو تو پہلے امام مسجد کو بلایاجاتا ہے اور اس سے اجتماعی دعا کرواتے ہیں ،پھر جس وقت میت کو گھر سے نکالا جاتا ہے ،تو مولوی صاحب سے قدم گنواتے ہیں کہ چالیس قدم پورے کرو ،جب چالیس قدم پورےہوجاتے ہیں تو مولوی صاحب ٹھہر کر دعا کراتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ قدم گننے سے میت کو ثواب ہوتاہے یا قدم گننے والوں کو؟ نیز یہ عمل نمازِ جنازہ سے پہلے ہے یا قبرستان لے جاتے ہوئے ۔اس حالت میں امام مسجد کو گھر بلانا جائز ہے، جب کہ گھر پر فوتگی کے وقت محرم اور نامحرم عورتوں مردوں کا بکثرت اختلاط ہوتا ہے ؟(تاج محمد، مانسہرہ)

جواب:حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ جس نے کسی مسلمان کے جنازے کو چالیس قدم تک اٹھایا تو اس کے چالیس بڑے گناہ معاف ہوں گے، (اَلْمعجم الأَوسط للطّبرانی:5920)‘‘۔ سنت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اورہربار دس دس قدم چلے اورپوری سنت یہ ہے کہ پہلے داہنے سرہانے کندھا دے، پھر داہنی پائنتی، پھر بائیں سرہانے ،پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے توکل چالیس قدم ہوئے ، جنازے کو گھر سے اٹھاکر جنازہ گاہ تک لے جاتے ہوئے چالیس قدم چلے یا جنازے کے بعد ،دونوں صورتوں میں ’’حملِ جنازہ ‘‘ کی سنت اداہوجائے گی ۔علامہ عالم بن العلاء انصاری دہلوی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’پھر جاننا چاہیے کہ جنازہ لے کر چلنے میں دو چیزیں ہیں: ایک نفسِ سُنّت اور دوسرا کمال، پس نفسِ سنّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چارپائی کے چاروں پائے اس طرح پکڑ کر چلے کہ ہر جانب دس دس قدم چلے ،حدیث پاک میں ہے : جس نے کسی مسلمان کے جنازے کو چالیس قدم تک اٹھایا تو اس کے چالیس بڑے گناہ معاف ہوں گے۔(الفتاویٰ التاتارخانیۃ،کتاب الصلاۃ،الفصل الثانی والثلاثون فی الجنائز،حمل الجنازۃ)

واضح رہے کہ مذکورہ طریقے کے مطابق جنازے کو چالیس قدم لے کر چلنا مستحب ہے، اگر کوئی شخص کمزوری یا کسی وجہ سے چالیس قدم تک جنازہ نہ اٹھاسکے، یا چالیس سے زیادہ قدم چلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چالیس قدم سے کم اٹھانے والے کو کم ہمت یا معیوب سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔ چالیس قدم خود گننے یا امام مسجد کو بلا کر گنوانے اور میت کو اس کا ثواب پہنچانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں،یہ رسم واجب الترک ہے۔ نامحرم خواتین کے ساتھ اختلاط امام ہی کیا دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی حرام ہے ۔فی نفسہٖ دعائے مغفرت ہر وقت جائز ہے ،لیکن کسی چیز کو لازمی قرارجان کر التزام کرنا درست نہیں ہے ۔

تازہ ترین