• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کے نامور کالم نگاروں اور اینکرپرسنز کو راولپنڈی میں اپنے ہاں مدعو کیا اور سکیورٹی کی صورتحال پر ایک طویل بریفنگ دی۔ مجھے یہ بات گھما پھرا کر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ مجھے جنرل صاحب بہت سی وجوہات کی بنا پر اچھے لگتے ہیں۔ باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں پہلے یہی ”قضیہ“ کیوں نہ نمٹالیں۔ جنرل صاحب کے اچھا لگنے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ان کے ”دور ِ حکومت“‘ میں پہلی بار عوام کی منتخب پارلیمینٹ کو پانچ سال پورے کرنے کاموقع ملا اور یوں ایک جمہوری حکومت نے اس دوران برے (زیادہ) بھلے (کم) کام کئے۔ دوسری وجہ یہ کہ جنرل کیانی اگرچہ خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور اسی نوع کی دوسری مداخلتوں کا رستہ پوری طرح نہ روک سکے تاہم اس ضمن میں بہتری ضرور آئی۔ 65 سال کے رویئے ایک دم تحلیل نہیں ہوسکتے تھے اور اس ضمن میں اگر کوئی ”انقلابی“ کوشش کی جاتی تو جنرل صاحب کو ”اپنوں“ ہی کی طرف سے شدید مزاحمت ہی نہیں بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ کا سامنا کرنا پڑتا۔ جنرل صاحب کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ وہ فوجی ہونے کے باوجود دانشور قسم کی چیز ہیں۔ اپنے شعبے کی کتابوں کے علاوہ اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ بھی ان کی ایک ”عادت“ بن چکا ہے اور ایک ”حیرت انگیز“ بات یہ کہ وہ ”بلڈی سویلینز“ کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ سب کی بات پوری توجہ سے سنتے اور کڑوی سے کڑوی بات کا جواب بھی بڑے تحمل سے دیتے ہیں مثلاً متذکرہ بریفنگ میں جب میں نے کہا کہ ”جانے پہچانے دہشت گردوں کو اگر عدالتیں باعزت طور پر رہا کردیتی ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ان دہشت گردوں کو باعزت طور پر ”مسنگ پرسنز“ میں شامل کردیا جائے؟“ تو جہاں محفل میں قہقہہ پڑا وہاں جنرل صاحب نے پورے صبرو تحمل اور دلیل کے ساتھ میری بات کا جواب دیا۔ جنرل صاحب کی ایک اچھی بات ان کا انکسار ہے اور تکبر سے کوسوں دور ہونا ہے....اورشخصی طورپر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ ان تھک محنت اور اہلیت کی بنیاد پرموجودہ حیثیت تک پہنچے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے دور میں فوج کے لوئر رینک کے لئے بہت مثبت اقدامات کئے۔
آپ یقین جانیں یہ سب کچھ لکھتے ہوئے میرا سانس پھول گیا ہے کہ میرا تعلق بھی لکھنے والوں کے اس قبیلے سے ہے کہ کسی جرنیل کی جائز تعریف کرتے ہوئے بھی قلم کو ”دندل“ پڑ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ میرا اپنا ماضی بھی ہے کہ جنرل ایوب خان سے جنرل ضیاءالحق اور جنرل ضیاءالحق سے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا پوری قوم کے ساتھ میں نے بھی بھگتے ہیں، صرف بھگتے نہیں بلکہ الحمد للہ ان کے خلاف مزاحمت بھی کی ہے۔ جن سپہ سالاروں نے آئین کے تحت اٹھائے ہوئے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی اور ملک کو مارشل لا کی شعلے اگلتی بھٹی میں نہیں جھونکا ان کے بھائی بند ان کے نام کے ساتھ ”باجی“ کا لفظ لگا دیا کرتے تھے۔ بہرحال مجھے لگتا ہے کہ اصل بات تو درمیان ہی میں رہ گئی اور جنرل کیانی کا تذکرہ طول پکڑ گیا تاہم اس کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بریفنگ کے آغاز ہی میں ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ یہاں جتنی باتیں بھی ہو رہی ہیں وہ سب آف دی ریکارڈ ہیں اور بریفنگ کی تفصیل بیان نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سب ”آن دی ریکارڈ“ باتیں یار لوگوں نے اپنے کالموں اور خبروںمیں پہلے سے بیان کردی ہیں۔ سو اب میرے پاس لے دے کر بتانے کی صرف ایک بات رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ جب جنرل کیانی صحافیوں کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ انتخابات بہرصورت ہوں گے اور وقت ِ مقررہ پر ہوںگے تو میرے برابر کی نشست پر بیٹھے صحافی نے میرے کان میں سرگوشی کی ”میری بات لکھ لو انتخابات نہیں ہوںگے!“ میں اس کی بات پر چونکا کیونکہ مجھے یاد آیا کہ آج سے تین چار ماہ پیشتر ایک کھانے کی میز پر جہاں سہیل وڑائچ اور ان ایسے دوسرے باخبر اخبارنویس بھی موجود تھے، لندن سے آئے ہوئے ”مہمان خصوصی“ نے بالکل یہی بات اور اتنے ہی تیقن سے کی تھی۔ اس وقت میں نے ”باجماعت“ ان کی بات کا تمسخر اڑایا مگر کچھ ہی عرصے بعد علامہ طاہر القادری کینیڈا سے پاکستان تشریف لے آئے اور مجھے یوں لگا میرا دوست شاید صحیح کہہ رہا تھا مگر جب سپریم کورٹ نے ان کا ”مکو“ ٹھپا تو وہ ”ابتدائی طبی امداد“ کے لئے واپس کینیڈا روانہ ہوگئے۔ گزشتہ روز ایک مزیدار ایس ایم ایس موصول ہوئی ”ہالز“.... ”یہ کیا ہے؟“ ”یہ ٹھنڈا کرتی ہے؟“ ”کتنا ٹھنڈا کرتی ہے؟“ ....”جتنا سپریم کورٹ نے طاہر القادری کو کیا۔“ سو جنرل صاحب کی محفل کے سبھی شرکا کو جنرل صاحب کی یقین دہانی پر یقین تھا! بس ایک دوست ابھی تک شک میں مبتلا تھے۔ یہ دوست بھی باخبر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سو جنرل صاحب سے میری یہ توقع بے جا نہیں کہ وہ ایسے تمام سوراخ بند کرنے کی طرف توجہ دیں گے جن سے شک و شبہ پیدا کرنے والے مناظر ابھی تک کچھ لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں!
تاہم ذاتی طور پر مجھے ابھی تک یقین ہے کہ انتخابات ہوں گے اور وقت پر ہوں گے اگرایسا ہوااور انشاءاللہ ایسے ہی ہوگا تو اس کا کریڈٹ جنرل اشفاق پرویزکیانی کوجانا چاہئے اور صرف جنرل کیانی کو نہیں، سپریم کورٹ کو ، الیکشن کمیشن کو اور میڈیا کو بھی.... اور ہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان میں سے بھی نواز شریف کو خصوصاً کہ انہوںنے بروقت ان سب کو یکجا کیا اور یہ میسیج دیا کہ انتخابات کا التوا برداشت نہیں کیاجائے گا.... اب نوازشریف کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پلان یہ ہے کہ اس ”گستاخ“ کے ووٹ تقسیم کرکے اسے نہتا کردیا جائے لیکن عوام کے فیصلے اپنے ہوتے ہیں اور متذکرہ نوع کے منصوبوں کی اوقات ان اخباری مراسلوں جیسی ہوتی ہے جن کے آغاز میں لکھا ہوتاہے ”مراسلہ نگار کی رائے سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں“ اور عوام نے ہر دور میں یہ ثابت کیا ہے کہ ملک کا سب سے مضبوط ادارہ وہ خود ہیں۔
اور اب آخر میں جناب شہباز شریف کی توجہ کےلئے ایک مراسلہ!
جناب عطا الحق قاسمی
السلام علیکم!
نہایت معذرت کے ساتھ آپ سے ایک معاملے میں مدد درکار ہے چونکہ آپ تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور تعلیم سے متعلق مسائل کو خوب سمجھ سکتے ہیں چنانچہ آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ آپ کم از کم ایک مرتبہ وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف تک یہ مسئلہ پہنچا دیں۔ علاقہ داتا نگر بادامی باغ لاہور میں قائم گورنمنٹ انٹر گرلز کالج جو تیس سال سے علاقے کے گورنمنٹ محمدیہ ہائی سکول کے تین کمروں میں تدریسی عمل مکمل کر رہا ہے جناب شہباز شریف کی توجہ کا منتظر ہے۔ لاہور جیسے شہر میں ایک گورنمنٹ کالج کا یہ حال اور اس کالج کی طالبات اور تدریسی عملہ سے ایسی غفلت کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ تیس سال میں دوسری نسل اس جگہ پر اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ حکام بالا کی تھوڑی بہت توجہ سے اس علاقے میں کالج کی بلڈنگ کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے لیکن کالج کو ہنوز شفٹ نہیں کیا جارہا۔ کالج کا تدریسی سامان بھی نئی بلڈنگ میں پہنچا دیا گیا ہے لیکن کالج، طالبات اور عملہ دو کمروں میں تمام تدریسی سہولیات سے محروم کسی معجزے کا منتظر ہے۔
قوم کی وہ نسل جسے اگلی نسل کی تربیت کا فرض نبھانا ہے خود تعلیمی مسائل سے دوچار اور تربیت سے محروم ہے۔ لائبریری، سائنس لیبارٹری، واش روم ، گراﺅنڈ کچھ بھی میسر نہیں حد تو یہ کہ نیچے عمارت میں سکول کی بچیوں کا شور لیکچر سمجھنے کا مرحلہ بھی دشوار بنا دیتا ہے۔

جناب قاسمی صاحب! پلیز اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے قوم کی بچیوں پرایک ایسا احسان کردیں جو نسلوں کی دعاﺅں کی صورت آپ کے لئے زاد ِ راہ بن جائے گا۔ اب تو حکومت بھی ختم ہونے والی ہے اور حکومت کا اپنا ہی علاقہ گرلز کالج سے محروم ہے پلیز اس طرف توجہ فرمایئے گا۔ شکریہ....طالبات و اساتذہ
گورنمنٹ انٹرگرلز کالج، راوی روڈ، داتا نگر لاہور
تازہ ترین