• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کینتھ گریفن‘‘ پیشے کے اعتبار سے اس وقت امریکہ کے ماہر انویسٹر، فنڈ منیجر اور مخیر شخصیت ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہی ہارورڈ جسے دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے۔ سترہویں صدی میں بننے والی یہ یونیورسٹی اب تک 158نوبیل انعام جیت چکی ہے۔ اس کے فضلا کی تعداد 3لاکھ 71ہزار سے زائد ہے، مگر Kenneth C. Griffin اپنی یونیورسٹی کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ یونیورسٹی ایسی تھی جس نے اسے فیس لے کر تعلیم دی۔ امریکہ و یورپ میں یونیورسٹی کی تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ زندگی کے کئی سال تعلیمی قرض اتارتے گزرتی ہے۔ مگر کینتھ نے اس کے باوجود اپنی یونیورسٹی کو 15کروڑ ڈالر ڈونیشن دی۔ یہ رقم پاکستان کے حساب سے 21ارب روپے بنتی ہے جبکہ اسی پر بس نہیں، مزید 17ارب روپے کے گفٹ بھی یونیورسٹی کے نام کیے۔ یہ ایک طالب علم کی طرف سے اپنی مادرِ علمی کے لیے عقیدت، محبت اور تعلق کا اظہار تھا۔ طلبہ کی اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آج ہارورڈ یونیورسٹی کے پاس 39ارب ڈالر کا وقف فنڈ موجود ہے۔ معاشرے کی تعمیر میں تعلیم ہی بنیاد کا پتھر ہوتی ہے۔ جس قوم سے علم اور تعلیم رخصت ہو جائے وہ تاریخ کے صفحات میں وحشی تاتاریوں اور سنگ دل رومیوں کی صف میں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ تعلیم استاد اور شاگرد کے تعلق کا نام ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کے فضلا اور پاس آئوٹ طلبہ ہی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ فضلا اور پاس آئوٹس کو اپنی مادر علمی اور تعلیمی ادارے سے منسلک رکھنے کے لیے ایلومینائی ایسوسی ایشن اور فضلا ڈیسک سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔

آج سے ڈیڑھ صدی پہلے 1866ء میں دارالعلوم دیوبند نامی ایک مدرسہ قائم ہوا۔ مدرسے کے قیام کے صرف 12سال بعد 1878ء میں اس دینی ادارے کے فضلا نے ’’ثمرۃ التربیت‘‘ کے نام سے ایک ایلومینائی قائم کی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو حضرات دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، ان پر اپنی مادر علمی کا بہت بڑا حق ہے۔ طے پایا کہ یہ فضلا سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنی ماہانہ آمدنی کا چوتھائی حصہ دارالعلوم کو پیش کریں گے۔ اس میں ابتدائی طور پر 19فضلا شامل تھے اور ایک سال میں 96روپے کی ڈونیشن دارالعلوم میں جمع کروائی۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند:187) ایلومینائی ایسوسی ایشن کا کوئی ایک فائدہ نہیں۔ سب سے بڑی چیز تو عملی زندگی میں قدم قدم رہنمائی ہے۔ ایک طالب علم جب فارغ التحصیل ہوتا ہے تو اسے زمانے کی بوقلمونیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اسے ایک ہمدردانہ مشورے کی تلاش ہوتی ہے۔ ایسے میں پرانے فضلا، نئے گریجویٹس کا ہاتھ تھامتے ہیں، ضروریات بڑھتی ہیں تو فضلا ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ ایلومینائی کے ذریعے ایک ہی سوچ رکھنے والے اور بااعتماد ملازمت کے مواقع سب سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ کئی ایلومینائی ایسوسی ایشنز ایسی ہیں جہاں پر 80فیصد فضلا کو جاب مل جاتی ہے۔ نئے فضلا کے پاس موقع ہوتا ہے کہ پرانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ پرانے فضلا میں سے بہت سے مینٹور، رہنما اور لیڈر ہوتے ہیں جو نئے فضلا کی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر آپ اپنے فضلا سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے، انہیں زمانے کے سردو گرم کے حوالے کردیں گے، تو اس کا امکان زیادہ ہے کہ کار زارِ حیات میں الجھنوں کا شکار ہوں مگر کوئی حل دستیاب نہ ہو ا۔ ڈونیشن کے مواقع، اسکالر شپس، مینٹوشپ، کیریئر میں رہنمائی، نیٹ ورکنگ، بزنس کمیونٹی تک رسائی کا آسان ذریعہ ایلومینائی ہے، سب سے وفادار سپاہی و ساتھی، مارکیٹنگ کا سب سے بڑا ذریعہ، تفریح، تبدیلی سے آگاہ، عالمی سوچ۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کے فضلا اور پاس آئوٹس اس کا نہایت قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ اس ادارے کا چہرہ بھی ہوتے ہیں، پیغام بھی اور کارکردگی بھی۔ فضلا کی کامیابی ہی، دراصل تعلیمی ادارے کی کامیابی ہوتی ہے۔ جبکہ کسی بھی تعلیمی ادارے سے بے لوث تعلق، اٹوٹ محبت اور پُرخلوص رشتہ بھی اس کے فضلا کا ہی ہوتا ہے۔ اس ادارے کو پھلتا پھولتا دیکھ کر ہر فاضل کا سینہ فخر سے چوڑا ہوتا ہے۔ اب مسئلہ ہوتا ہے کہ فضلا تو چند سال پڑھنے کے بعد مادر علمی کو چھوڑ جاتے ہیں، عملی فیلڈ سے وابستہ ہوتے ہیں اور کیریئر کی بھول بھلیوں میں رفتہ رفتہ اپنی راہ تکتی مادر علمی کا رستہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

اس کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ مادر علمی، تعلیمی ادارے نے تو ہر ہر طالب علم کو ایک جیسا نظریہ دیا، زندگی گزارنے کے گر یکساں طور پر سکھائے اور سب کو زندگی گزارنے کی تعلیم بھی ایک طرح ہی دی، مگر عملی زندگی میں ہر شخص کو ایک الگ چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر طالب علم کو کیریئر کے دوران ملنے والا ماحول، دوسروں سے یکسر جدا ہوتا ہے۔ ہر شخص کو زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والی مشکلات ایک نئی اور انوکھی نوعیت کی ہوتی ہیں، اس لیے بہت ضرورت پڑتی ہے کہ اپنے اساتذہ سے ملا جائے، کچھ رہنمائی لی جائے۔ دینی مدارس کے لیے اس کی اہمیت دوچند ہے۔ دینی مدارس کے فضلا جب سندِ فراغت حاصل کر کے اپنے اپنے علاقوں کو سدھارتے ہیں تو انہیں گوناگوں مشکلات گھیرتی ہیں۔ سب سے پہلے معاشی مشکلات کی اود بلائو گھیرا تنگ کرتی ہے، اس سے نکلتے ہیں تو ’’معاشرے میں کام کی حکمت عملی‘‘ عشق پیچاں کی بیل کی مانند دل و دماغ کا گھیرائو کرتی ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ فضلا کو ادارے کے ساتھ جوڑا جائے۔ مادر علمی سے جوڑنے کیلئے دنیا بھر میں ایلومینائی ایسوسی ایشنز یا فضلا ڈیسک قائم کیے جاتے ہیں۔ ایلومینائی ایسوسی ایشنز کے واسطے سے طلبہ متحد اور منظم رہتے ہیں۔ ان کیلئے روزگار کیلئے نئی راہیں بھی ہموار ہوتی ہیں۔

تازہ ترین