• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل پرویز مشرف کے بعد فوج عوام میں غیرمقبول ہوگئی اور جنرل حضرات بھی عوام سے ناراض ہوگئے کہ عوام ہمیں بلاتے بھی ہیں اور برا بھلا بھی کہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے اور ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ سو انہوں نے ایسا ہی کیا اگرچہ ملک لٹ رہا تھا، تباہ ہورہا تھا، عوام کی جان و مال محفوظ نہیں تھی مگر انہوں نے اپنے آپ کو کسی بھی معاملہ میں ملوث نہیں کیا۔ سوائے اس کے کہ جو حکم سویلین حکومت دے ورنہ وہ خاموش رہے۔ اس خیال سے کہ سیاستدان نااہل ہیں وہ کام نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے جب عوام اُن کو پکارے گی تو وہ آجائیں گے۔ سیاستداں یہ سمجھتے رہے کہ جنرل صاحبان اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے کوشاںہیں چنانچہ وہ فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے، پی پی پی کے سیاستدانوں نے فوج کی اسی سوچ کو سمجھ کر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا اور مسلم لیگ (ن) جرنیلوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔اگرچہ وہ زرداری صاحب کے مقابلے میں صورتحال کو بہتر طور پر نہیں سمجھ پائی اور اس فلسفے پر کہ زرداری کو پورا موقع دینا ہے کہ وہ اپنے پانچ سال مکمل کر لے تو پھر نواز شریف کی باری آجائے گی کیونکہ اس وقت تک پی پی پی بدنام ہوجائے گی مگر پانچ سال گزر جانے کے بعد پی پی پی بقول ایک کالم نگار کے یہ لوگ اپنے سوٹ کیس تیار کئے بیٹھے ہیں کہ کب بگل بجے تو یہ فرار ہوجائیں۔اب کیانی صاحب نے فروری 2013 کے آخری ہفتے میں صحافیوں کو جی ایچ کیو میں بریفنگ دی جو پانچ گھنٹے تک جاری رہی اس میں بھی انہوں نے ساری صورت حال کا احاطہ کیا مگر اب اپنی طرف سے کچھ نہ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ریٹائر ہوجائیں گے اور سیاستداں اپنا کھیل جاری رکھیں گے۔ یہ سیاستداں مجھے تین ماہ پہلے ہٹا دیں گے اور اگر اعلان پہلے کردیا تو میری طاقت ویسے ہی ختم ہوجائے گی اور یہ اپنا کھیل جاری رکھیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر مجھے پہچانتے تک نہیں، الیکشن کمیشن کے باقی ممبران سیاستدانوں کے نامزد کردہ ہیں۔ اب اس سارے کھیل میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ حکومت اپنی سول انتظامیہ سے کام نہیں لیتی اور نہ ہی سول ایجنسیوں سے کام کرواتی ہے۔ ان کے وزیر سارا الزام ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے سر تھونپ دیتے ہیں۔جنرل صاحب انتخابات میں بھی فوج کو الجھانا نہیں چاہتے اور نہ ہی کراچی و کوئٹہ کے معاملے میں فوج کو ملوث کرنا چاہتے ہیں۔
اصل میں جنرل صاحبان اور سیاستداں دونوں ہی جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ قوم کی قسمت کے ساتھ مذاق ہے۔ سیاستداں نااہل ہیں، جنرل حکمرانی کے لئے تربیت یافتہ نہیں، اُس کی نیک نامی تھی کہ وہ ایماندار ہیں اس پر بھی جنرل پرویز مشرف کے دورحکومت میں سمجھوتا ہوگیا۔ اگر زندگی بچانے کی ایک دوا کا ایک مریض عادی ہوجائے تو اسے دوا سے نجات دلانے کے لئے اس دوا کو مکمل بند نہیں کیا جاتا، اگر ایسا کردیا جائے تو مریض جان سے چلا جائے گا اُس کو اس دوا سے نجات دلانے اور زندگی بچانے کے لئے بتدریج دوا سے دور کرنا ہوگا۔ یعنی ضرورت پڑی تو دوا دیدی ورنہ نہیں۔ جنرل حضرات نے سول حکومت پر ساری ذمہ داری سونپ دی اور خود علیحدہ ہو کر کھڑے ہو گئے، جیسے ان کا پاکستان کے عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں اگرچہ میں نے اپنے کالموں میں اس کا کئی دفعہ ذکر کیا مگر وہ کسی امام خمینی کا انتظار کرتے رہے مگر پاکستانی عوام امام خمینی پیدا نہیں کرسکتی کیونکہ ایران ایک فطری ملک ہے اور پاکستان ایک نظریاتی ملک امام خمینی کے پیچھے ”قم“ جیسا تاریخی یونیورسٹی کا شہر تھا، نوجوان تھے، پاکستان میں عمران خان جیسا شخص آیا جو نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی پھر علامہ طاہرالقادری آئے، دونوں فیل ہوئے۔اب کسی حد تک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ادارہ اُن سے توقعات باندھے ہوئے تھا مگر وہ دونوں ناکام ہوگئے۔ پھر ایران میں ایک فرقے کی واضح اکثریت ہے جبکہ پاکستان میں فرقوں کی بہار ہے اور ایک اتنا متشدد ہوگیا ہے کہ وہ زبردستی اپنی فقہ کی حکومت لانا چاہتا ہے اور اُس کے علماءنے خاموشی اختیار کر رکھی ہے کہ شاید اُن کے فرقے کی حکومت آہی جائے جو کبھی نہیں آئے گی ملک ٹوٹ سکتا ہے، کوئی ایک فرقہ ملک پر حکمرانی نہیںکرسکتا اور نہ ہی اپنا مسلک لاگو کرسکتا ہے۔ یہاں پر اعتدال پسندی سے حکمرانی کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں نے بھارت میں اسلام کے نام پر حکومت نہیں کی مگر اپنے تدبر سے پورے بھارت پر اقلیت میں ہونے کے باوجود تسلط جمائے رکھا۔ ملک سب کا ہے اس طرح فوج کا روٹھ کر بیٹھ جانا کسی عالمی منصوبے کا حصہ تو ہوسکتا ہے، لیکن ایک قومی فوج کا کردار نہیں۔ یہ درست ہے کہ فوج عالمی ردعمل کا احاطہ نہیں کرسکتی جیسا کہ اس کا مظاہرہ کارگل میں دیکھنے میں آیا۔اب تک وہ اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں کہ اگر اس دفعہ کوئی تنہائی میں مہم جوئی ہوئی تو عالمی ردعمل آئے گا۔ اس پر مجھے سابق گورنر سندھ اور سابق وزیر داخلہ پاکستان محمود ہارون یاد آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر فوج آئی تو ملک دو سال میں ٹوٹ جائے گا مگر اُس کے بعد جنرل پرویز مشرف آئے اور آٹھ سال تک دھڑلے سے حکمرانی کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ سینئر ترین سیاستداں کا تجزیہ درست ہو مگر ایک بات تو صاف ہے اور اس پر سب کا اتفاق بھی ہے کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو پھر ملک مزیدسخت خطرات سے دو چار ہوجائے گا۔ اس ملک کو کھوکھلا کردیا گیا ہے۔ اس کے غداروں اور دشمنوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ غیرملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ حکومت کی سرپرستی میں ففتھ کالم سرگرمیاں کرتے پھر رہے ہیں اور اگر کوئی طاقت کوئی بڑا واقعہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو ملک پٹری سے اترسکتا ہے، اُس کو غیرمستحکم کرسکتا ہے اس لئے تدارکی اقدامات اٹھانا چاہئے۔ یہ سیاسی کھیل کا وقت نہیں اس طرح ملک کی قسمت سے کھیل کھیلا جارہا ہے۔ نااہل سیاستداں کیسے ہوسکتے ہیں۔ سیاست عوام کی خدمت کے مقدس کام کا نام ہے۔ ساری صورتحال سامنے رکھ کر اس لئے میں نے ٹیکنوکریٹ اور دانشوروں کی اس حکومت جس کو سیاستدانوں سمیت، فوج، ایجنسیوں اور عدلیہ کی حمایت حاصل ہو، کا نظریہ 2009ءمیں ہی پیش کردیا تھا۔ جس طرح کے الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا اور خرابی جنم لے گی۔ انتخابات میں دیکھ لیں۔ میرے خیال میں کوئی بھی شخص جنرل یحییٰ خان نمبر دو نہیں بننا چاہے گا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم صرف یہ کہیں گے خاک ہوجائیں گے اچھی حکومت کے بام پر آنے تک۔
تازہ ترین