• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری حکومت نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئ پالیسیوں کو تشکیکل دیا

جنگ: وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر کام کرتے ہوئے آپ کو ایک برس ہوگیا ۔ اس دوران اپنی کارکردگی کے بارے میں کچھ بتائیں گے ؟

سردارعثمان بزدار:الحمداللہ، اس ایک سال کے دوران میں نے اپنی قیادت کے وژن اور عوامی ضروریات کے مطابق خدمات سرانجام دیں۔ ہم نے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے نئی پالیسیوں کی تشکیل کی ۔ان میں نمایاں پالیسیاں پنجاب گروتھ سٹریٹیجی 2023ء، زرعی پالیسی، پنجاب انڈسٹریل پالیسی 2018 ، ٹورازم پالیسی، لیبر پالیسی، لائیوسٹاک پالیسی، پنجاب واٹر پالیسی، ایجوکیشن پالیسی (نیو ڈیل 2023) پنجاب لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن پالیسی، سپیشل ایجوکیشن پالیسی، پنجاب کلچرل پالیسی 2018ءاور پنجاب ایڈورٹائزمنٹ پالیسی 2018ءشامل ہیں۔

ہماری حکومت نے قانون سازی کی طرف بھی بھرپور توجہ دی۔ واٹر ایکٹ، پنجاب اینیمل ہیلتھ ایکٹ، پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ، پنجاب ویلیج پنچائت اینڈ نیبر ہڈ کونسل ایکٹ، پنجاب ملٹی سٹوری بلڈنگ ایکٹ، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ2018 ، پنجاب چیرٹیز ایکٹ 2018 ، پنجاب آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایکٹ2019ء، پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء، پنجاب منیمم ویجز ایکٹ 2018ء، پریس نیوز پیپر نیوز ایجنسی بک ایکٹ2018 ءہماری حکومت کی نمایاں قانون سازیاں ہیں۔ 

عوام کو صاف پانی کی فراہمی کےلئے پنجاب آب پاک اتھارٹی بنائی گئی ۔ بڑے شہروں میں تلاش رزق کےلئے آنے والے بے گھر لوگ فٹ پاتھوں اور پارکوں میں کھلے آسمان تلے سویا کرتے تھے، ان کےلئے پناہ گاہیں بنائیں۔ صحت اور انصاف کارڈ کی فراہمی بھی ہماری حکومت کا کارنامہ ہے۔ کلین اینڈ گرین منصوبہ پنجاب کے تحت دس بلین سونامی ٹری پراجیکٹ بھی روبہ عمل ہے۔ ورلڈ بینک کا پنجاب سٹیزن پروگرام بھی اسی ایک سال کے دوران سامنے آیا۔ 14ہزار ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ بھرتی کیا گیا ۔ ساڑھے چار ہزار کالج ٹیچرز (انٹرنیز) بھرتی کی گئیں۔

جنگ: وہ کون سا ایریا ہے جس میں آپ ابھی تک ڈلیور نہیں کر سکے؟

سردارعثمان بزدار: دیکھیں ہم ہر شعبہ زندگی میں عوام کی فلاح وبہبود کےلئے تبدیلی کے وعدے پر برسراقتدار آئے ہیں ،اس منصب کو سنبھالنے کا صرف ایک ہی مقصدعوام کی خدمت اور ہمارا اس کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں-ہم نے تمام سرکاری محکموں میں اصلاحات کا آغاز کردیا ہے-لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ تبدیلی پلک جھپکتے نظر آجائے ایسا توممکن نہیں تبدیلی کا عمل دیر پا ہوتا ہے او ردیر سے ہی رونما ہوتا ہے-ہم نے ہر شعبے میں ڈلیور کیا ہے۔

جنگ: وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے آپ کے اہداف کیاہیں، جن پر آپ کام کررہے ہیں اور ان پر کیا پیشرفت ہو چکی ہے،آپ نے ان اہداف کے حصول کے لئے کیا ڈیڈ لائن مقر ر کی ہے؟

سردارعثمان بزدار: جیساکہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں صرف اور صرف عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اور مجھے عوام کی خدمت کا یہ جذبہ ورثے میں ملاہے-ہاں میںکار حکومت میں شفافیت کےلئے کوشاں ہوں- سرکاری عہدےداروں کی طرز زندگی میں سادگی کا متمنی ہوں-عوام کے روپے پیسے کو بچانے کےلئے سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری کوفروغ دیاجا رہا ہے -میں عوام سے اٹھ کر آیا ہوں ،مجھے عوام کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے۔

میں یہ چاہتا ہوں کہ پنجاب کے ہر پسماندہ ضلع، ہر پسماندہ علاقے کو لاہو رجیسے ترقی یافتہ شہر کے برابر لایا جائے اور وہ سہولتیں جو لاہور میں میسر ہیں وہ منچن آباد ، وہوا، جھنڈ اور روجھان کے ہر مقیم کو میسر ہوں-میں اورمیری ٹیم اس کےلئے دن رات کوشاں ہےاور میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انشاءاللہ ہم یہ کر کے دکھائیں گے -جہاں تک ڈیڈ لائن کا تعلق ہے میں یہ کہوں گا کہ جلد ازجلد یہ سب کر لیا جائے ۔

جنگ: تعلیم اہم ترین شعبہ ہے جو قوموں کی ترقی میں بنیادکی حیثیت رکھتا ہے۔صوبہ میں تعلیم کی بہتری کیلئے اٹھائے گئے اقدمات پر روشنی ڈالیے؟

سردارعثمان بزدار :ہم پنجاب میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں او ر آپ جانتے ہیں کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کےلئے بنیادی بات تعلیم ہے-ہماری حکومت پوری طرح سے کوشاں ہے کہ صوبے کا کوئی بچہ سکول سے باہر نہ رہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس کے دوران 22ہزار سے زائد نئے بچوں کو سکولوں میں داخل کیا گیا ہے جبکہ 12ہزار بچوں کو غیر رسمی عارضی تعلیمی اداروں سے مستند تعلیمی اداروں میں منتقل کرنے کا پروگرام مرتب کیا گیا ہے۔ خواجہ سراؤں کی تعلیم کیلئے 3 جبکہ خانہ بدوشوں کےلئے 15ادارے قائم کئے جارہے ہیں۔

بنیادی تعلیم کا آغاز چوںکہ سکول سے ہوتا ہے چنانچہ سکولوں کا معیار بہتر بنانے کےلئے عالمی ماہرین سے شراکت داری سے ”دی نیو ڈیل“ کے نام سے پانچ سالہ پروگرام شروع کیا گیا ہے جو 2023ءمیں ختم ہوگا۔صوبے میں 100ماڈل سکولز قائم کئے جارہے ہیں۔ پہلے فیز میں 6ملین کی لاگت سے راولپنڈی، میانوالی، لاہور ، گجرانوالہ، فیصل آباد، ساہیوال، ملتان ، ڈیرہ غازی خان، سیالکوٹ اور رحیم یار خان میں ماڈل سکول قائم کئے جارہے ہیں۔تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے صوبے میں پہلی مرتبہ پنجاب سکول ایجوکیشن پالیسی 2019ءکو حتمی شکل دی گئی ہے جس کے تحت لرننگ، معیاری تعلیم تک رسائی، مانیٹرنگ اور گورننس پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ 

پنجاب کے سرکاری سکولوں میں 2ہزار کمپیوٹرز اور سائنس لیبارٹریوں کی تعمیر اور بحالی جبکہ 16اضلاع کے سکولوں میں 4سو لائبریز کی تعمیر اور بحالی کی جا رہی ہے۔ دوردراز اضلاع کے 10ہزار 8سو سکولوں کو دسمبر 2019ءتک سولر انرجی پر منتقل کردیاجائے گا۔ ان میں راجن پور ، چولستان، تھل اور ڈیرہ غازیخان کے سکول شامل ہیں۔ سکولوں کی تعمیر اور بحالی کےلئے امسال ساڑھے 14ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پرائمری سطح پر شرح خواندگی کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ پہلے مرحلہ میں 22 اضلاع کے 719سکولوں میں دوپہر کی کلاسز کا آغاز کیا جارہا ہے۔

خصوصی بچوں کی تعلیم کےلئے پنجاب میں پہلی مرتبہ سپیشل ایجوکیشن پالیسی کا اجراءکیا گیا ہے۔ پنجاب بھر میں سپیشل ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کی تجدید نو کی 17سکیمیں ، کیمپس کی تعمیر کی 36سکیمیں اور نئے اداروں کے قیام کی 15سکیمیں امسال بجٹ میں رکھی گئی ہیں۔ جہلم اور ملتان میں سپیشل ایجوکیشن سنٹرز کی تعمیر اور تجدید 250ملین روپے سے کی جارہی ہے جبکہ سپیشل ایجوکیشن کے اداروں کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لئے 335 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ معذور افراد کی ووکیشنل ٹریننگ کے لئے 10ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ہم نہ صرف ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس کو اپ گریڈ کریں گے بلکہ ان کا نصاب عالمی اور مقامی مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق مرتب کیا جارہاہے ، ہم منڈی بہاؤالدین کے علاقے رسول میں پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے قیام پر کام کر رہے ہیں اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں ٹیکنیکل ٹریننگ کے لئے میر چاکر خان رند یونیورسٹی قائم کی جارہی ہے-پورے پنجاب میں مزید 6یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں ان میں گرونانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب، چکوال میں نارتھ پنجاب یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف میانوالی ، مری میں کوہسار یونیورسٹی ، بھکر میں تھل یونیورسٹی اور راولپنڈی میں بچیوں کےلئے پوسٹ گریجوایٹ یونیورسٹی کا قیام شامل ہے۔

ہماری حکومت نے  مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئ پالیسیوں کو تشکیکل دیا
زمانہ طالبعلمی کی تصویر

یونیورسٹیوں کے قیام کےلئے پورے سرکاری قواعد وضوابط پورے کئے جا رہے ہیں-اس کےلئے یونیورسٹی کا چارٹر بھی کابینہ اوراسمبلی میں منظوری کےلئے بھیجا جاتا ہے-یہ تمام مراحل بڑی تیزی سے طے کئے جا رہے ہیں-میرا ویژن ہے کہ پنجاب کے ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کی جائے اور ہم انشاءاللہ ضرور کریں گے -

جنگ : آپ نئے ہسپتالوں کے قیام کا اعلان بھی کر چکے ہیں یہ نئے ہسپتال کہاں کہاں قائم ہوں گے؟کیا آپ سپیشلائزڈ ٹریژی کیئر ہسپتالوں کو بنیادی قسم کے ہسپتال بنا رہے ہیں؟

سردارعثمان بزدار: پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ یہ 5ہسپتال ماں اور بچے کی صحت کےلئے مخصوص ہسپتال ہوں گے- یہ ہسپتال میانوالی ، لیہ ، اٹک او رراجن پو رمیں قائم ہوں گے -میں سمجھتا ہوں کہ بچوں اور ان کی ماؤں کی صحت پر خصوصی توجہ دے کر ہی ہم صحت مند پنجاب کا وعدہ پورا کر سکتے ہیں-اس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان میں لاہور اور ملتان کی طرز پر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی قائم کر رہے ہیں۔

میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوںکہ ہم نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا تقریبا ً39فیصد صحت کےلئے مختص کیاہے-اس کے علاوہ انصاف صحت کارڈ ہمارا فلیگ شپ پروگرام ہے جس کے ذریعے پنجاب کے 3 کروڑ شہریو ںکو اعلیٰ نجی ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جائے گی- جہاں تک سپیشلائزڈ ٹریژی کیئر ہسپتالوں کا تعلق ہے ہم شعبہ صحت میں بہت سی اصلاحات پر کا م کررہے ہیں جلد ہی یہ عملی شکل میں آپ کے سامنے ہوں گی-

جنگ:مہنگائی نے عام آدمی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔آپ کی حکومت مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی اور اشیاءضروریہ کی مصنوعی قلت کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

سردارعثمان بزدار:صارفین کے حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بنایاجائے گا اور پرائس کنٹرول میکانزم پر سو فیصد عملدرآمد کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ حکومت نے سبزیوں اور پھلوں کا ”آن لائن“ ہوم ڈلیوری کا پروگرام بنالیا ہے اسی پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں پانچ اضلاع لاہور ،گوجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان سے کیا جا رہاہے۔ صارفین کی سہولت کیلئے حکومت نے ”قیمت ایپ“ کا بھی آغازکیا ہے اسی ایپ پر روزانہ کی بنیاد پر اشیاءضروریہ کی قیمتوں کا اندراج ہوگا۔

ہماری حکومت نے  مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئ پالیسیوں کو تشکیکل دیا
واصف ناگی،وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خا ن بزدار سے انٹرویو کرتے ہوئے

اس ایپ کے ذریعے شہری اپنے اپنے علاقوں میں اشیاءضروریہ کی قیمتوں سے متعلق معلومات حاصل کرسکیں گے۔ صارفین اس ایپ سے فائدہ اٹھائیں گے اور گرانفروشی سے متعلق اس ایپ پر اپنی شکایت لوڈ کریں۔اس شکایت پر دو گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ دکاندار کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ہر دکاندار کو اشیاءضروریہ کے نرخوں کی لسٹ آویزاں کرنے کا پابند بنایاگیاہے۔اس سلسلے میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹوں اور مارکیٹ کمیٹیوں کومتحرک کیا گیا ہے۔

حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے کسانوں کو اپنی اجناس ماڈل بازاروں میں فروخت کرنے کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق صوبے کے 32 ماڈل بازاروں میں کسان براہ راست اپنی اجناس فروخت کرسکیں گے۔ پنجاب حکومت کسانوں کو اجناس کی فروخت کیلئے ماڈل بازاروں میں سٹال فراہم کرے گی اور کسانوں سے سٹالز کا کرایہ یا کوئی اور فیس نہیں لی جائے گی۔ 

کاشتکار کھیت سے سبزیاں اور پھل لا کر براہ راست ماڈل بازار میں عوام کو فروخت کریں گے اور صوبے میں زرعی فیئر پرائس شاپس کا دائرہ کار بھی بڑھایاجا رہاہے۔ پرائس کنٹرول کے حوالے سے حکومت زیروٹالرنس پالیسی پر عمل پیراہے۔

گراں فروشی کے خلاف جس ضلع سے شکایت آئی تو متعلقہ ڈپٹی کمشنر جوابدہ ہو گا۔انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کے خلاف بلا تفریق کریک ڈا ئون جاری رکھاجائے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کسی دبا ئوکے بغیر کارروائی کی جائے ۔ انتظامیہ پرائس کنٹرول کیلئے خود میدان میں نکلے کیونکہ دفتروں میں بیٹھ کر عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔ 

عملی اقدامات کر کے اشیائے ضروریہ کی مقرر کردہ نرخوں پر فروخت یقینی بنائی جائے اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس عوام کو ریلیف دینے کےلئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو روزانہ کی بنیادوں پر چیک کریں۔ سبزیوں، پھلوں اور دالوں کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ضلع کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال انداز میں کام کرنا ہوگا۔

جنگ: حال ہی میں پی آئی سی پر بڑا افسوس ناک حملہ ہواہے۔اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

سردارعثمان بزدار: میں نےآئی جی پنجاب کو کارروائی کا حکم دے دیاہے اور اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔شہریوں کے علاج معالجہ میں رکاوٹیں ڈالنا مجرمانہ اقدام ہے۔پی آئی سی میں وکلا کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ بلا جواز اور غیر قانونی عمل ہے۔جن وکلا نے قانون ہاتھ میں لیا ہے ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔

پنجاب حکومت کی ہمدردیاں جا بحق ہونے والے مریضوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔حکومت ڈاکٹروں کی گاڑیوں کے نقصان کا جائزہ کر کے اس کا معاضہ دے گی۔دوسرا پی آئی سی کے اہم مقامات پر رینجرز تعینات کر دیےگئے ہیں۔اور حکومت نے پی آئی سی کے متاثرین میں چیک بھی تقسم کر دیئے ہیں۔ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور عملے کے تحفظ کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے

جنگ : بعض میڈیا کے نزدیک آپ اتنے کامیاب وزیر اعلی نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟

سردارعثمان بزدار : دیکھیں میڈیا والے آپ کی طرح ہمارے دوست ہیں ،مجھے شوبازی یا ڈرامے بازی پر یقین نہیں میں کام کرتا ہوں ، میری ٹیم بھی کام کررہی ہے-اگر کسی کو کام ہوتا نہیں نظر آرہا تو میں اس کے بارے میں کیا کہوں؟ایک اور بات جو میں بصداحترام عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی مرتبہ ایک عام آدمی عام لوگو ںکے درمیان سے اٹھ کر وزارت اعلیٰ کے منصب پر پہنچا ہے او ریہ صرف اور صرف عمران خان کا ویژن ہے کہ انہوںنے وزارت اعلیٰ دی او ر بھرپو راعتماد کا اظہار کیا۔

اس سے پہلے بڑے بڑے زمیندار، جاگیردار ، صنعت کار اور جدی پشتی سیاستدان ہی اس عہدے پر فائز ہوتے رہے- میں مبالغہ آرائی نہیں کرتا لوگ شاید مجھ سے مائیک گرانے کی توقع کرتے ہیں-

میں آپ کو بتاتا ہو ںکہ عمران خان نے کہا کہ آپ وزارت اعلیٰ سنبھالیں میں جانتا ہو ںکہ آپ اچھے وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے، ان کے ان الفاظ نے مجھے حوصلہ دیا اور بارہاون آن ون ملاقات میں اورکابینہ کے اجلاسوں میں بھی انہوںنے بار ہا اظہار اعتماد کیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس اعتماد کو نبھانا ہے جو انہوں نے مجھ پر کیا او رمیں انشا ءاللہ یہ کر کے دکھاؤں گا-وسیم اکرم بہت اچھے باؤلر ہیں بلکہ آل رائونڈر ہیں ، مجھے بھی آل رائونڈر پرفارمنس دکھانی ہے اور میں اس کےلئے تیار ہوں-اس لیے انھوں نے مجھے وسیم اکرم پلس کا ٹائٹل دیا۔

جنگ: آپ نے اپنے علاقے میں لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور ترقی لانے کےلئے کیا اقدامات کئے ہیں؟

سردارعثمان بزدار :میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پورا پنجاب مجھے اسی طرح عزیز ہے اور میں ہر پسماندہ شہر کی ترقی کےلئے اسی طرح کوشاں ہوں جس طرح مجھے تونسہ اور کوہ سلیمان کے علاقوں کی ترقی کی خواہش ہے- یہ علاقے دہائیاں گزرنے کے باوجود پسماندگی کا شکار تھے ، ایک تو ہم نے یہ کیاہے کہ پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کےلئے مختص بجٹ اب صرف جنوبی پنجاب پر ہی خرچ ہوگا اور وہ کسی اور ہیڈ میں ٹرانسفر نہیں ہوسکے گا۔

ان علاقوں میں صحت انصاف کارڈ کا پروگرام لانچ کیا جاچکاہے-سکولوں، کالجوں کو اپ گریڈ کررہے ہیں،ہسپتالوں کو بھی اپ گریڈ کیا گیاہے ، ڈیرہ غازی خان کے علاقے کےلئے پہلی مرتبہ ٹیلی میڈیسن کی سہولت فراہم کی گئی ہے جس کےلئے عام آدمی تونسہ میں بیٹھ کر لاہو رکے بہترین کنسلٹنٹ سے طبی مشاورت حاصل کرسکتا ہے-

میں سمجھتا ہوں کہ میرے حلقے کے لوگوں کا بہت بڑا قرض ہے جو بہرحال مجھے چکانا ہے- بارتھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بجلی آچکی ہے ، روڈ انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا رہا ہے- موبائل ہیلتھ یونٹ بھی اس علاقے میں ٹائم ٹیبل کے مطابق خدمات سرانجام دے رہے ہیں- مجھے یقین ہے کہ ان پانچ سالوں میں کوہ سلیمان کے لوگوں کی قسمت بدل جائے گی۔

جنگ:جب آپ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بات کرتے ہیں تو اس سے کیا اخذ کیا جائے کہ آپ کن ایریا میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی حوصلہ افزائی کرنے کاارادہ رکھتے ہیں؟

سردارعثمان بزدار: دیکھئے!پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ تحریک انصاف کی حکومت کا ویژن ہے جس کے تحت پنجاب میں سڑکوں کی تعمیر کے متعدد منصوبے تکمیل کی طرف گامزن ہیں-ہم یہ چاہتے ہیں کہ پرائیویٹ شعبہ بھی آگے بڑھ کر ترقیاتی عمل میں حصہ لے ، راولپنڈی میں رنگ روڈ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنایا جارہاہے-اسی طرح اپنا گھر ہاؤسنگ سکیم میں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو سراہا جا رہاہے -ہم نے اس مقصد کےلئے پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی بھی قائم کی ہے جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنائے گی اور ان عوامل کی نگرانی بھی کرے گی۔

جنگ:پنجاب کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے ، آپ کی حکومت نے گزشتہ ایک برس کے دوران اس ضمن میں کیا اقدامات اٹھائے؟

سردارعثمان بزدار:ہم نے پہلے دن سے ہی زراعت سے وابستہ تمام شعبوں کی بہتری اپنا نصب العین رکھا ۔ اس ضمن میں آب پاشی ، زراعت ، لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ قابل ذکر ہیں۔ تفصیل تو بے حد طویل ہوجائے گی میں مختصراً عرض کرتا ہوں کہ قانون سازی کے ذریعے پنجاب واٹر پالیسی 2018ء اور واٹر ایکٹ 2019ءبنائے گئے چنا نچہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانی کی بہترین انداز میں مینجمنٹ کےلئے نہ صرف ریزل وائرز بلکہ پانی کی بچت پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ 

تین ارب روپے سے اسلام بیراج کی اپ گریڈیشن کی جارہی ہے ۔ جناح ،تریموں اور پنجند بیراجوں کی اپ گریڈیشن کابیشتر کام مکمل ہوچکا ہے اور اربوں روپے کی لاگت سے متعدد نہروں کی اپ گریڈیشن کی جارہی ہے۔ جلال پور کینال کی تعمیر جاری ہے جس سے جہلم اور خوشاب میں 80دیہاتوں کے سوا دو لاکھ کسان مستفید ہوں گے۔ پوٹھوہار کے اضلاع میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے۔

بین الاقوامی اداروں کے اشتراک سے پنجاب کےلئے لائیو سٹاک پالیسی تشکیل دی گئی اور پنجاب اینیمل ہیلتھ ایکٹ 2019ءکی منظوری بھی دی گئی۔ جس سے لائیو سٹاک کے فروغ اور بر آمدات میں اضافہ ہوگا۔ اس ضمن میں جنوبی پنجاب کو ترجیح دی جارہی ہے ۔ 

جانوروں کی صحت کےلئے موبائل ڈسپنسریوں کا آغاز ڈیرہ غازی خان سے کیاجارہا ہے۔ لائیو سٹاک کی پیداوار بڑھانے کےلئے خصوصی مہم کا آغاز ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور بہاول پور سے کردیا گیا ہے۔ ایف ایم ڈی فری زونز کے سلسلہ میں پہلا مرحلہ چولستان اور بہاول پور ڈویژن سے شروع کیا گیا ہے۔

کھالہ جات کی پختگی کےلئے ساڑھے 18کروڑ روپے کی لاگت سے فیز ٹو شروع کردیاگیا ہے۔ علاوہ ازیں کپاس اور تیل کے بیجوں اور کھادوں پر سبسڈی، فصلوں کی بیمہ پالیسی، ایک لاکھ 60ہزار کسانوں کو 10۔ارب روپے کے بلاسود قرضے، پنجاب ماڈل مارکیٹ کےلئے زمین کی خریداری ، کاٹن ریسرچ سب اسٹیشن راجن پور کا قیام، پھولوں کی کاشت کے لئے 400ملین کا پروگرام جیسے اقدامات بھی گزشتہ ایک برس میں اٹھائے گئے ہیں۔ 

پنجاب میں معیاری اشیاءخوردونوش کی فراہمی کےلئے ایگری کلچر مارکیٹنگ کمپلیکسز کی منظوری دی گئی ہے ۔ لاہور میں تعمیر جاری ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں راولپنڈی، گجرانوالہ ، شیخوپورہ اور ڈی جی خان میں یہ کمپلیکسز بنائے جائیں گے۔130آئی پی ایم ماڈل فارمز قائم کئے جارہے ہیںجن میں کیڑے مار ادویات کی بجائے دیگر فارمنگ ٹیکنیکس استعمال کر کے پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔

جنگ:بطور وزیراعلیٰ پنجاب آپ کا وژن کیا ہے؟

سردارعثمان بزدار:پنجاب پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ ہے اور اس کی وزارت اعلیٰ کا منصب کسی آزمائش سے کم نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ صوبہ ہونے کی بناءپر یہاں کے لوگوں کی توقعات کا معیاربہت بلند ہے۔وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی میں نے اپنا ایک جو وژن بنایا اس کے مطابق کاروبار حکومت میں شفافیت ، اپنی طرززندگی میں سادگی، عوامی سرمائے کی بچت، سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری، سرکاری ملازمین میں عام آدمی کے مسائل کا احساس پیدا کرنا ، عوام سے قربت، عوام کے حقیقی مسائل کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل، پس ماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا، سرکاری دفاتر میں اوپن ڈور پالیسی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اولین ترجیحات میں شامل تھے۔

چارج سنبھالنے کے بعد میری ایک اہم ترجیح کفایت شعاری اپنانا اور غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کرنا تھا۔ چنانچہ وزیراعلیٰ کے دفتری اخراجات میں نمایاں کمی کرتے ہوئے میں نے اس کام کا آغاز کیا۔ تنخواہوں کے علاوہ دیگر مدات میں 60فیصد کمی کی گئی۔ 

سرکاری رہائش گاہوں کی سکیورٹی واپس لے کر 55کروڑ روپے بچائے گئے اور 2ہزار اہلکار واپس اپنے اداروں میں گئے۔ وی آئی پی سکیورٹی اخراجات میں 66فی صد ، گاڑیوں کی مرمت کی مد میں 50فی صد ، تحائف اور مہمان داری کے اخراجات میں 75فی صد کمی کی گئی۔

جنگ : اپنے علاقہ اور خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے؟

سردارعثمان بزدار:میرا تعلق تحصیل کوہ سیلمان سے ہے جہاں لوگوں کو علم و ادب سے خصوصی شغف ہے۔ شرح خواندگی پاکستان کے دیگر شہروں اور قصبوں کی نسبت زیادہ ہونے کی بناءپر اسے” یونان صغیر“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تحصیل تونسہ میں بہت سے بلوچ قبائل آباد ہیں۔بزدار قبیلے کے لوگ سرائیکی اور بلوچی بولتے ہیں ، یوں آپ انہیں دولسانی (Bilingual) قبائل میں شمار کرسکتے ہیں۔ 

نوآبادیاتی دور میں اس علاقے کے لوگوں خصوصاً بزدار قبیلہ نے انگریز سرکار کی حکمرانی کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ کوہ سلیمان کے پہاڑو ں پر گولہ باری کے نشانات آج بھی بزداروں کی حریت پسندی کے گواہ ہیں لیکن اس مزاحمت کی قیمت ہمیں یوں چکانی پڑی کہ پھر اس علاقے کو جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا گیا۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پنجاب اور بلوچستان میں پھیلے کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ میں بہت سے بلوچ قبائل رہائش پذیر ہیں۔ ان میں قیصرانی، لغاری، دریشک ، مزاری، گورچانی، کھوسہ، کھتران، جعفر اور بزدار قبائل قابلِ ذکر ہیں۔بزدار سب سے بڑا قبیلہ ہے جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان سب بلوچ قبائل کے جد امجد میرچاکر خان رند تھے جن کا مزار اوکاڑہ کے نواحی گاؤں ست گرہ میں ہے۔

جہاں تک میرے خاندانی پسِ منظر کا تعلق ہے تو کوہِ سلیمان میں بزدار قبیلے کے سب سے طاقت ور سربراہ ، سردار خان بہادر پائند خان تھے۔ انہوں نے اپنے صاحب زادے ، جو میرے پردادا تھے ، سردار عاشق خان کو اپنی زندگی میں ہی بزدار قبیلے کی سربراہی سونپ دی تھی۔ سردار عاشق خان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے، میرے دادا سردار دوست محمد خان کو قبیلے کی سربراہی کے ساتھ ساتھ عدالتی اور انتظامی اختیارات بھی سونپ دئیے گئے۔ سردار دوست محمد خان بزدار روایتی سوچ کے برعکس ، ایک منفرد مزاج کے روشن خیال شخص تھے۔ انہوں نے 1955ءمیں ہمارے گاؤں بارتھی میں پہلا ہائی سکول بنوایا اور تونسہ نیشنل ہائی وے سے بارتھی تک سڑک بھی تعمیر کروائی۔

1981ءمیں سرداردوست محمدخان کا انتقال ہوا اور قبیلے کی سرداری میرے والد سردار فتح محمد خان بزدار کے سپرد ہوئی۔ انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجوایشن کی اور پھر جامعہ کراچی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1981ء میں بطور سردار بزدار قبیلہ ، دستار بندی کے بعد میرے والد کو عملی سیاست میں آنا پڑا۔ 1983ءمیں وہ صدر ضیاءالحق کی وفاقی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ 1988ءاور1993ءمیں ممبر ضلع کونسل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں جبکہ 2002ءاور2008ءکے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

جنگ :آپ نے تعلیمی مدارج کہاں سے طے کیے؟

سردارعثمان بزدار: میں نے میٹرک ملتان سے کیا ۔ گریجوایشن گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے کی جسے اُن دنوں گورنمنٹ کالج کہا جاتا تھا۔پھر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے پولیٹیکل سائنس کرنے کے بعد اسی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ڈسٹرکٹ بار ملتان کا رکن رہا۔

جنگ:آپ سیاست میں کیسے آئے ؟ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی سیاسی تربیت میں آپ کے والد کا بنیادی کردار ہے؟

سردارعثمان بزدار:جی بالکل اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ میری سیاسی تربیت اپنے والد کے زیرسایہ ہوئی۔ عوام سے محبت اور عوام کی خدمت کا جذبہ والد سے ہی میں نے وراثت میں پایا۔ میرے والد مرحوم بزدار قبیلے کے حکمران نہیں بلکہ مسیحا تھے۔

ہر دکھ درد میں اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ شریک رہنا اور ان کی مدد کرنامیرے والد مرحوم کا وطیرہ تھا۔انہوں نے اپنی زندگی بزدار قبیلے کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کئے رکھی۔ ان سے ملنے والوں کا کہنا ہے کہ سردار فتح محمد خان بزدار جیسی صاف گو اور انسان دوست شخصیت بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔

وہ چاہتے تھے کہ تحصیل کوہ سلیمان کے عوام کا معیارِ زندگی بھی ملک کے ترقی یافتہ علاقوں جیسا ہو۔ہمارےہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ اسی جذبے اور مشن کو ساتھ لے کر میں سیاسی میدان میں اترا۔ میری عملی سیاست کا آغاز 2001ءکے بلدیاتی انتخابات سے ہوا اور میں نے تحصیل ناظم ٹرائبل ایریاکے طور پر خدمات کا آغاز کیا۔ اگلی ٹرم میں بھی عوام نے مجھ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور میں پھر سے تحصیل ناظم بنا۔ 

ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ 2018ءکے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا ۔ تحصیل تونسہ کے عوام نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے کامیاب کروایا۔ اسی کامیابی کے نتیجہ میں اللہ کے فضل و کرم سے وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچا۔یہ میری قیادت کا مجھ پر اعتماد ہے ورنہ میں وزارت اعلیٰ کے حصول کی کسی دوڑ میں شامل نہیں تھا۔

جنگ:آپ تحصیل ناظم رہے۔ اس دوران اپنے علاقے اور عوام کی ترقی کے لئے آپ کا کیا لائحہ عمل تھا؟

سردارعثمان بزدار:اگر میرے گاؤں بارتھی کا ذکر کیا جائے توسچی بات یہ ہے کہ وہاں کے خشک، بنجر، بیابان اور بے آب و گیاہ علاقے میں آباد لوگوںکی محرومیوں کا احاطہ کرنے کےلئے ”پس ماندگی“ کی اصطلاح ناکافی ہے ۔ لاہور اور ملتان جیسے بڑے شہروں سے چند گھنٹے کی مسافت پر واقع صوبہ پنجاب کے اس علاقہ کی محرومی اور پس ماندگی کا اندازہ کرنے کو یہی بتا دینا کافی ہے کہ بجلی جیسی بنیادی سہولت یہاں کے مکینوں کو قیامِ پاکستان کے 71 برس بعد میسر ہوئی۔ 

کوہِ سلیمان کے ان سخت جان اور جفاکش باسیوں کےلئے زندگی ایک جہدِ مسلسل ہے جس میں آسائش کا تو خیر تصور ہی کیا ، بنیادی ضروریات بھی دستیاب نہیں۔ بڑے شہروں کے خنک کمروں میں بیٹھ کر قبائلی زندگی کی سختیوں کے بارے میںتصور کرنا بھی محال ہے۔ وہاں آج بھی کھیتی باڑی کےلئے بیل جبکہ سواری کےلئے اونٹ اور گھوڑے استعمال ہوتے ہیں۔ خود ہمارے قبیلے میں صدیوں سے بکریاں پالنے کا رواج ہے۔

اپنے علاقے کی محرومیوں کا میں خود گواہ ہوں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں نہ تو آمدورفت کے لئے راستے دستیاب ہیں اور نہ صحت کی کسی قسم کی سہولیات۔ چارپائی پر ڈال کر کسی مرکز صحت کی طرف جاتے ہوئے مریض کا راستے میں ہی دم توڑ دینا معمول کی بات ہے۔ لاہور میں بیٹھے لوگ ممکن ہے ان باتوں کو مبالغہ آرائی پر محمول کریںمگر کچھ عرصہ پہلے تک بارتھی کی زندگی ایسی ہی تھی۔

الحمداللہ! اب تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ کسی نے تبدیلی دیکھنی ہے تو بارتھی جا کر دیکھے جہاں آج برقی پنکھے گھومتے ہیں اور گرمی کے ستائے قبائلی ان کی ہوا میں سکون پاتے ہیں۔ وہی بارتھی جہاں سورج پہاڑ کی اوٹ میں منہ چھپاتا تو زندگی اندھیروں میں ڈوب جایا کرتی تھی ، اب وہاں برقی قمقمیں روشنیاں بکھیرتی ہیں۔ بارتھی سے تونسہ ، تونسہ سے ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ غازی خان سے سیون کلب روڈ لاہور کا میرا سفر بھی دراصل اسی تبدیلی کا آغاز ہے اور نقیب۔وہی تبدیلی جس کا ہمارے پس ماندہ بلوچ عوام کو دہائیوں سے انتظار تھا۔

تازہ ترین