• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی آنکھ شور سے کھلی۔ شور ایسا تھا کہ لگتا تھا کہ جیسے آندھی آ رہی ہے۔ شور قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ کالا دیو باغ کے اندر جا رہا ہے۔۔ وہ فوراً چھپ گیا۔ دیو اسے نہ دیکھ سکا اور اس کے قریب سے گزر گیا۔ بہزاد کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی پہاڑ اس کے برابر سے گزر کر جا رہا ہے۔ دیو نے باغ کا دروازہ کھولا۔ بہزاد سانس روکے دبے پاؤں اس کے پیچھے پیچھے چلا اور جیسے ہی وہ باغ کے اندر گیا، بہزاد بھی اندر چلا گیا اور فوراً ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔ جنگل میں پرندے پکڑنے کے کام میں اسے بہت دیر تک ہلے جلے بغیر چھپ کر رہنا پڑتا تھا، یہ عادت اسے یہاں بہت کام آئی۔ دیو کو پتا بھی نہیں چلا کہ کوئی اس کے پیچھے پیچھے باغ کے اندر آ گیا ہے۔

وہ باغ بہت خوبصورت تھا۔ اس میں عجیب عجیب رنگ کے ایسے پھول تے کہ بہزاد دنگ رہ گیا۔ اس میں ایسے پرندے تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بہزاد رات کو وہیں چھپا رہا۔ صبح کالا دیو پھر باہر آیا۔ شاید وہ شکار کی تلاش میں جا رہا تھا۔ جب دیو چلا گیا تو بہزاد جھاڑی کے پیچھے سے نکلا اور باغ میں سمن نام کا پھول تلاش کرنے لگا۔ اسے وہاں ویسے ہی پرندے بھی نظر آئے جیسے اس نے بادشاہ کو دیے تھے، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ سمن کون سا پھول ہے۔ وہاں تو ہر طرح کے پھول تھے۔

باغ میں گھومتے گھومتے اسے ایک بہت بڑا مکان نظر آیا۔ دیو اس میں رہتا تھا۔ بہزاد اس کے اندر چلا گیا۔ اس مکان میں چالیس کمرے تھے۔ ہر کمرا دوسرے سے بڑھ کر خوب صورت تھا، لیکن پورے مکان میں کوئی نہیں تھا۔ آخر جب وہ چالیسویں کمرے میں پہنچا تو اسے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے لگا کہ آواز قالین کے نیچے سے آ رہی ہے۔ اس نے قالین اٹھایا تو فرش میں ایک دروازہ بنا ہوا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو سیڑھیاں زمین کے اندر جا رہی تھیں۔ وہ سیڑھیاں اتر کر اندر چلا گیا۔ نیچے ایک تنگ اور اندھیرا کمرا تھا۔ رونے کی آواز تیز ہو گئی تھی۔ بہزاد نے غور سے دیکھا تو اندھیرے میں ایک لڑکی نظر آئی، جو ہوا میں لٹکی ہوئی تھی۔ اس کے لمبے لمبے بال چھت میں ایک کنڈے سے بندھے ہوئے تھے اور وہ رو رہی تھی۔ بہزاد کو دیکھ کر بولی: "ارے لڑکے! تم یہاں کیسے آ گئے؟ تم ہو کون؟ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر کالا دیو آ گیا تو تمھارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔"

بہزاد نے کہا:"تم فکر نہ کرو۔ وہ باہر گیا ہوا ہے۔ یہ بتاؤ تم کون ہو؟"

"میرا نام چندا ہے۔ وہ منحوس دیو مجھے کئی سال پہلے اٹھا لایا تھا۔ تب سے میں یہاں قید ہوں۔"

بہزاد نے اس کے بال کھول کر اسے نیچے اتارا۔ اس نے پر پوچھا:"تم کون ہو اور یہاں کیوں اور کیسے آئے ہو؟" بہزاد نے پوری بات بتائی کہ وہ کس طرح سمن کے پھول کی تلاش میں آیا ہے اور اگر پھول نہ ملا تو بادشاہ اس کی ماں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

چندا نے کہا, "سمن نام کا پھول سب سے پہلے میں نے اگایا تھا۔ اگر تم مجھے یہاں سے نکال کر لے جاؤ تو میں تمھیں سمن اگا کر دوں گئ۔ پھر سارے پرندے تمھارے پاس آیا کریں گے۔" اس نے بتایا کہ کالا دیو کے اصطبل میں تیز گھوڑے بھی ہیں۔ بہزاد اصطبل گیا اور اس نے دو گھوڑے کھول لیے۔ دونوں ان پر سوار ہو گئے۔ چندا کو معلوم تھا کہ باغ میں ایک پتھر کو دبانے سے باغ کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس طرح دونوں دروازہ کھول کر گھوڑوں پر سوار وہاں سے نکل بھاگے۔

گھوڑے بھگاتے بھگاتے دونوں بہزاد کے شہر پہنچ گئے۔ بہزاد کی ماں دونوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ دونوں کو گلے لگایا، کھانا کھلایا، پھر پوچھا:"یہ بتاؤ! جو پھول تم لینے گئے تھے، وہ ملا بھی یا نہیں؟"

بہزاد نے پوچھا: "امی! جب میں گیا تھا تو میں نے آپ کو کچھ نہیں بتایا تھا، پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں پھول لینے گیا تھا؟"

امی نے بتایا: "بادشاہ کے سپاہی روز آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بہزاد پھول لے کر آیا کہ نہیں۔"

اتنے میں بادشاہ کے سپاہی آ گئے اور پوچھا : تم پھول لائے یا نہیں؟" اس سے پہلے کہ وہ جواب میں کچھ کہتا، چندا نے کہا: "ہاں لے آیا ہے۔ تھوڑی دیر میں خود بادشاہ کے پاس پھول لے کر جائے گا۔" بادشاہ کے سپاہی چلے گئے تو چندا نے چاقو لے کر اپنی انگلی میں چیرا لگایا۔ خون کے دو قطرے نکلے اور نکل کر پھول بن گئے۔ چندا نے کہا، کہ میں اس طرح سمن کے پھول بنا سکتی ہوں، اس لیے وہ مجھے قید رکھتا تھا۔ اب یہ پھول بادشاہ کے پاس لے جاؤ۔"

(جاری ہے)

تازہ ترین