• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز آج مسائلستان بن چکا ہے۔ ملکی معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ رہی سہی کسر مہنگائی اور بیروزگاری نے پوری کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ اور لاقانونیت کی انتہا ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ہونے والا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ افسوسناک اور کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

یہ واقعہ پولیس، انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حملے میں ملوث افراد کی سی سی ٹی وی شناخت کی جائے اور مجرمان کو جلد از جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اسپتال پر حملہ انسانیت سوز اور مہذب معاشرے میں بدترین دہشت گردی ہے۔ اسپتال میں ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، مریضوں اور لواحقین کو ہراساں کرنا قابل مذمت ہے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایسے بدنما واقعات رونما ہو رہے ہیں جو حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن گئے ہیں۔

پنجاب میں امن و امان کی صورتحال روز بروز گمبھیر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ چند روز قبل مرید کے میں جماعت اسلامی کے تین رہنماؤں کو دن دہاڑے بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے جو صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کا ثبوت ہے۔

ملک کے دیگر حصوں سمیت پنجاب میں امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے اور بلا تفریق کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستانی بچیوں کی فروخت سے متعلق غیر ملکی میڈیا کی خبریں بھی تشویشناک ہیں، حکومت پاکستان فوری نوٹس لے۔ انسانی اسمگلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ایف آئی اے سمیت تمام متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔

اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں اور ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیے۔ افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی افرادی قوت 6کروڑ سے زائد ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 21سے 24سال کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ملکی حالات سے دلبرداشتہ نوجوان غیر قانونی طور پر بیرونِ ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی اس کوشش میں ہر سال درجنوں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

حکومت کو ملکی حالات بہتر بنانے کیساتھ ساتھ کشمیر کے اہم ایشو کو حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جموں و کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان کے 22کروڑ عوام اپنے نہتے کشمیری بہن بھائیوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے لیکن حکومت پاکستان کے کردار نے 80لاکھ کشمیریوں کو شدید مایوس کیا ہے۔بھارتی پارلیمنٹ میں متنازع شہریت بل کی منظوری بھی انتہائی قابل مذمت ہے۔

یہ بل بھارتی آئین کے آرٹیکل 5، 10، 14اور 15کی روح کے منافی ہے۔ اس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ یہ مسودہ قانون ہٹلر کے قوانین سے بھی زیادہ برا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2لاکھ سے زیادہ مہاجرین ہیں جبکہ 25کروڑ مسلمان آباد ہیں۔

مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہیے، آخر عالمی برادری کب ہوش کے ناخن لے گی؟ بھارت اپنی 9لاکھ فوج کے ذریعے 80لاکھ لوگوں کو دائمی طور پر بنیادی حقوق بالخصوص اظہارِ رائے اور حق خود ارادیت کی آزادی سے محروم نہیں رکھ سکتا۔

بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں بھارتی فوج نوجوانوں پر بہیمانہ تشدد کر رہی ہے جبکہ کرفیو کے باعث وادی میں جان بچانے والی ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، مسلسل کرفیو اور کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 22دسمبر کو اسلام آباد میں عظیم الشان اور تاریخی آزادی کشمیر مارچ ہوگا۔

جماعت اسلامی کے زیر اہتمام اس آزادی کشمیر مارچ کی قیادت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کریں گے۔ 72برسوں سے کشمیری حق خود ارادیت کے منتظر ہیں مگر بھارت نے اپنی 9لاکھ فوج کے ذریعے نہتے کشمیریوں کی آزادی کو سلب کر رکھا ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے اٹھنے والی تحریک آزادی وادی کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔

کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔

دنیا کو دکھانے کے لیے سیکولر ازم کا نعرہ لگانے والی بھارت کی نسلی عصبیت کی شکار قیادت مسلسل جنوبی ایشیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں دہلی سے جاری بھارت، جاپان مشترکہ اعلامیہ انتہائی تشویشناک ہے۔

پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات، درحقیقت عالمی برادری کی مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی مذموم کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے جاپان، بھارت اعلامیہ کو مسترد کرنا کافی نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پوری قوت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین