• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے سیاستدانوں کا کسی ایک مسئلے یا شخصیت پر اتفاق رائے بہت مشکل ہے اگرچہ ناممکن نہیں۔ باوجود سخت سیاسی کچھاﺅ کے ملک کی تمام سیاسی قوتیں اور رائے عامہ جسٹس (ریٹائرڈ )فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری پر یک آواز ہوئی جس سے یہ یقین ہو گیا کہ آئندہ عام انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں گے ۔ نہ صرف فخرو بھائی بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چاروں ممبران جنکا تقررآئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ہوا پر بھاری قومی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا اوراہم کام قوم کی امیدوں اور امنگوں پر پورا اترنا ہے۔ان کی ایمانداری اور دیانتداری میںشکوک و شہبات پیدا کرنا بےجااور ظالمانہ ہے۔گتنی کے چند افراد نے ان پر مختلف انداز میں سخت دباﺅ ڈالا ہے کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق کام کریں۔ڈاکٹر طاہر القادری نے تو کافی عرصہ تک ان کا جینا دوبھر کئے رکھا،مگر سپریم کورٹ سے ان کی پٹیشن مسترد ہونے کے بعد یہ معاملہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔تاہم اس کے باوجودبھی فخرو بھائی سخت دباﺅمیں ہیں۔ جوں جوں ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے ڈر سالگا رہتاہے کہ وہ کہیں گھر کو چلتا ہونے کا فیصلہ نہ کر لیں۔ سب لوگوں کے ذہن میں ہونا چاہئے کہ اگر فخرو بھائی منظر سے غائب ہو گئے تو آئندہ الیکشن کا کیا بنے گا؟کیا تھوڑے ہی عرصے میں جلدی سے کوئی دوسرا ان جتنا ایماندار اورغیر جانبدار شخص تلاش کیا جا سکے گا؟ یقینا ایسی صورت حال بہت گمبھیر ہو گی۔ لہٰذا فخرو بھائی کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ڈٹے رہیں۔ انہوں نے ایک مشکل کام اپنے ذمہ لیا ہے وہ اسے نبھا کر ہی گھر جانے کا سوچیں۔ اگر وہ اسے ادھورا چھوڑ گئے تو قوم انہیںمعاف نہیں کرے گی اور اگر انتخابات منصفانہ اور ایماندارانہ نہ ہوئے تو ذمہ دار وہ بھی ہوں گے۔ فخرو بھائی کی شخصیت پر غورکریں تو وہ بہت زیادہ دباﺅ میں کام کرنے والی شخصیت نہیں ہیں۔ مگر ہمارے ہاں انتخابات کی نگرانی کرنا یقیناًایک انتہائی مشکل اور متنازعہ کام ہے جس میں ہر کسی کی تسلی ہونا ممکن نہیں ۔
ابھی تک تو فخرو بھائی کو صرف جعلی ڈگریوں کے مسئلے پر ہی دباﺅ کا سامنا ہے مگر آنے والے وقت میں انہیں نئے نئے تنازعات سے نمٹنا ہو گا۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ ”سیاسی “گورنروں کی موجودگی ہے ۔ یہ معاملہ اگرچہ فخرو بھائی کے دائرہ اختیار میں نہیں مگر شفاف انتخابات کےلئے انہیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کے معاملے پر بھی نظر رکھنا ہو گی ۔ اسی طرح سب جانتے ہیں کہ گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی وفاداری پیپلزپارٹی سے ہے۔ اگرچہ وہ اس میں شامل نہیں ہوئے مگر ان کی اس عہدے پر تقرری کا مقصد صرف اور صرف پیپلزپارٹی کی پنجاب میںسیاسی حیثیت کو بہتر بنانا تھا۔ اپنی تقرری کے کچھ ہفتے بعد ہی انکے تینوں بیٹے اور کچھ قریبی رشتہ دار پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ وہ گورنر ہاﺅس میں ہوتے ہوئے اپنے مخدوم اور فیوڈل کنکشن کو استعمال کر کے پیپلزپارٹی کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ہی گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی بھی پیپلزپارٹی کے خیر خواہ ہیں اور غیر سیاسی نہیں ہیں۔ تاہم حال ہی میں مقرر کئے جانے والے گورنر خیبر پختونخوا کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے تقرر میں ان کی قبائلی پس منظر کا دخل ہے مزید یہ کہ اس صوبے کی صورتحال بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے مخصوص قسم کی ہے ۔ لہٰذا ان کے بطور گورنر کام کرتے رہنے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ جب وفاقی اور صوبائی سطح پر نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ آجائیں گے تو فخرو بھائی کو ان کے ساتھ مل کر انتخابات کو منصفانہ بنانے کےلئے مختلف اقدام کرنا ہوں گے جن میں سیاسی گورنروں کی سبکدوشی اولین ہونی چاہیے ۔ آئین کے مطابق صدر ¾وزیراعظم کے مشورے پر گورنر کا تقرر کرتے ہیں ۔ جب نگران وزیراعظم صدر آصف علی زرداری کو ان گورنروں کو ہٹانے کےلئے مشورہ دیں گے توان کے پاس انہیں اپنے عہدوں پر رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہو گا۔ گورنروں کی تقرری صدر کا صوابدیدی اختیار نہیں ہے۔
اس کے علاوہ فخرو بھائی کو بیوروکریسی میں بہت زیادہ تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے بے شمار منظور نظر افسروں کو اچھی اسامیوں پر تعینات کیا ہوا ہے جو اپنے سیاسی آقاﺅں کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے لہٰذا ایسے افسران جو کسی نہ کسی انداز میں انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں انہیں تبدیل کرنا ہو گا ۔ ان میں صوبائی چیف سیکٹری ¾ ہوم سیکٹری اور آئی جی صاحبان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے اداروں کے کام پر سخت نظر رکھنی ہو گی کیونکہ ان کا مقصد پیپلزپارٹی کو فائدہ پہنچانا ہے۔ مزید یہ کہ درجنوں سیاسی وجوہات پر مقرر کئے گئے بیرون ملک سفیروں کو سبکدوش کرنا ہو گا۔
جعلی ڈگریوں کے مسئلے پر فخرو بھائی کی کارکردگی قابل ستائش نہیں ہے۔ کوئی بھی دلیل ثابت شدہ جعلی ڈگری کے جرم کو نہیں دھو سکتی ۔ نہ صرف ایسے جعل سازوں کو انتخابی دنگل سے باہر پھینکنا ضروری ہے بلکہ ان یونیورسٹیوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی چاہئے جو اس جرم میں شریک ہیں۔ جب جمشید دستی کی ڈگری جعلی ثابت ہو گئی اور سپریم کورٹ میں سزا سے بچنے کے لئے انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑا تو انہیں فوراً ہی نااہل قرار دیا جانا ضروری تھا مگر ایسا نہ کیا گیا جس کی وجہ سے جعلی ڈگری والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ اب اگرچہ الیکشن لڑنے کے لئے گریجویشن کی شرط نہیں مگر جب یہ موجود تھی اور کچھ امیدواروں نے اس کی خلاف ورزی کی اور یہ ثابت بھی ہو گیا تو ان کے لئے سزا ضروری ہے۔ فخرو بھائی کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہئے ورنہ ان کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھیں گی۔
تازہ ترین