• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزوہ بنی قینقاع

… 15شوال، 2ہجری…

یہ غزوہ ہجرت کے بیسویں مہینے میں یہودیوں کے ایک قبیلے، بنو قینقاع کے ساتھ ہوا۔ مدینے کے نواح میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل آباد تھے، بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظ۔ اُنہوں نے اپنی حفاظت کے پیشِ نظر مضبوط قلعے بنا رکھے تھے۔ نبی کریم ﷺنے مدینے کے یہودی قبائل سے معاہدہ کیا تھا کہ جنگ کی صُورت میں فریقین ایک دوسرے کی مدد کریں گے، لیکن غزوۂ بدر کے موقعے پر یہودیوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا۔چوں کہ وہ درپردہ قریشِ مکّہ کے ساتھ تھے، اِس لیے بدر میں اُن کی شکست پر اُنھیں صدمہ ہوا۔ اس جنگ کے بعد اُنھوں نے مسلمانوں کو تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ 

ان تینوں قبائل میں بنو قینقاع کے لوگ بہادر، نڈر اور جنگ جُو تھے۔ یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے سُنار اور لوہار تھے، اس لیے اُن کے پاس سامانِ حرب بھی بڑی تعداد میں موجود تھا۔ اس قبیلے میں جنگ جُو جوانوں کی تعداد سات سو کے قریب تھی، جو ہر وقت مسلّح رہتے۔ یہ شریر اور فسادی لوگ تھے۔ غنڈہ گردی، بدمعاشی، لُوٹ مار، چھیڑ چھاڑ، دنگا فساد اُن کے مزاج کا حصّہ تھا۔ اسی قبیلے نے سب سے پہلے’’ میثاقِ مدینہ‘‘ توڑا۔ایک روز کا واقعہ ہے، ایک مسلمان خاتون بنو قینقاع کے بازار میں یہودی سُنار کے پاس کچھ چیزیں فروخت کرنے آئیں۔ 

سُنار نے چہرے سے نقاب ہٹانے کو کہا، تو خاتون نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر یہودی نے چُپکے سے اُس کی چادر کا کنارہ کسی چیز سے باندھ دیا۔ جب وہ خاتون اُٹھیں، تو چادر اُتر گئی اور وہ بے پردہ ہو گئیں۔ اس پر وہاں موجود یہودیوں نے زور دار قہقہہ بلند کیا۔ اتفاق سے ایک مسلمان بھی وہاں موجود تھا۔ اُس نے جب ایک مسلمان عورت کی یوں بے حرمتی ہوتے دیکھی، تو اُس کی غیرت نے جوش مارا اور اُس نے یہودی کو قتل کر دیا۔ جواباً یہودیوں نے اُس مسلمان کو شہید کردیا، جس کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں میں تصادم ہو گیا۔

رسول اللہﷺ بنو قینقاع کے محلّے میں تشریف لے گئے اور یہودیوں کو نصیحت فرماتے ہوئے معاہدے پر کاربند رہنے کی تاکید فرمائی۔آپﷺ نے فرمایا ’’اے گروہِ یہود! اللہ سے ڈرو۔ جیسے بدر میں قریش پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، کہیں اُسی طرح تم پر نازل نہ ہو۔‘‘یہودیوں کو نصیحت اچھی نہ لگی۔ بولے’’اے محمّد(ﷺ)! قریش کو ہرا کر کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، تمہارا مقابلہ قریش کے اناڑی اور ناتجربے کار لوگوں سے تھا، ہمارے جیسے بہادر لوگوں سے نہیں۔ اگر ہم سے لڑائی ہوئی، تو پتا چل جائے گا کہ ہم کتنے جنگ جُو اور نڈر ہیں۔‘‘ بنو قینقاع کا یہ متکبّرانہ اور گستاخانہ جواب کھلم کُھلا اعلانِ جنگ تھا۔ 

لہٰذا وقت آ گیا تھا کہ اُنہیں سبق سکھایا جائے۔ آپؐ نے مدینے کے انتظامی معاملات حضرت ابو لبابہؓ بن عبدالمنذر کے سُپرد کیے اور بروز جمعہ 15شوال 2ہجری کو صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت لے کر بنو قینقاع کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس سفر میں سفید پرچم حضرت حمزہؓ کے پاس تھا۔ خود کو جنگ جُو اور بہادر کہنے والوں نے جب مسلمانوں کے لشکر کو چمکتی تلواروں کے ساتھ دیکھا، تو خوف کے مارے قلعہ بند ہوگئے۔ 15دن تک اُن کا محاصرہ جاری رہا۔ بالآخر سولہویں روز اُنھوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ عرب کے دستور کے مطابق اسیرانِ جنگ قتل کر دئیے جاتے تھے، چناں چہ یہودیوں کو بھی یقین تھا کہ وہ قتل کر دئیے جائیں گے۔ بنو قینقاع، انصار کے قبیلے، بنو خزرج کے حلیف تھے، جس سے عبداللہ بن ابی کا بھی تعلق تھا۔ 

اُسے بظاہر اسلام قبول کیے ایک ماہ ہی ہوا تھا، لیکن وہ اُن یہودیوں کی جان بخشی کی سفارش لے کر بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہو گیا اور نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ اُنہیں معاف کرنے کی درخواست کی۔ آنحضرتﷺ نے اُسے منع فرما دیا، لیکن وہ چرب زبان اور خوشامدی منافق تھا، صبح سے شام تک نہایت عاجزی کے ساتھ آہ و زاری کرتا رہا۔ 

آخر نبی کریمﷺ نے بنو قینقاع کے تمام قیدیوں کی جان بخشی فرماتے ہوئے حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اپنے علاقے سے نکل جائیں۔ حضرت عبادہؓ بن صامت، بنو قینقاع کے تمام یہودیوں کو خیبر تک چھوڑ آئے، جہاں سے وہ اذرعات( شام) چلے گئے، لیکن وہ وہاں زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اور جلد ہی اُن سب کی موت واقع ہو گئی۔ (ابنِ سعد۔ ابنِ ہشام)۔مسلمانوں کو یہودیوں کے اس مضبوط قلعے سے مالِ غنیمت میں بہت سا سونا چاندی اور کافی تعداد میں سامانِ حرب ملا۔ ان ہتھیاروں میں سے آپﷺ نے تین تلواریں، تین نیزے اور تین کمانیں لیں۔ رسول اللہﷺ نے پانچواں حصّہ نکال کر باقی مال مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔

غزوہ بنو سلیم

… شوال، 2ہجری…

بدر سے آئے ہوئے سات دن ہی ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ قبیلہ غطفان کی شاخ، بنو سلیم کے لوگوں نے مدینے پر چڑھائی کے لیے’’ کدر‘‘ کے مقام پر فوج جمع کر لی ہے اور وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فوری طور پر دو سو جوانوں کا دستہ ساتھ لیا اور بنفسِ نفیس وہاں جا پہنچے۔ 

کدر، بنو سلیم کے ایک چشمے کا نام تھا، جو مکّے سے شام جاتے ہوئے نجد کے مقام پر واقع تھا۔ بنوسلیم نے مسلمان فوجیوں کو دیکھا، تو اُن میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ افراتفری کے عالم میں اپنے پانچ سو اونٹ اور دیگر سامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ ہر ایک کے حصّے میں دو، دو اونٹ آئے۔ وہاں تین دن قیام کے بعد آپﷺ مدینہ منوّرہ لَوٹ آئے۔

سَریّہ عمیر ؓبن عدی

…25 رمضان، 2ہجری…

عصما بنتِ مروان کا تعلق بنو اُمیہ بن زید سے تھا۔ یہ اسلام دشمن تھی۔ مسلمانوں کی ہجو کرتی، بُرا بھلا کہتی، واہیات اور اشتعال انگیز اشعار کہتی۔ حضورﷺ کی شان میں بدزبانی کرتی اور ایذا پہنچاتی۔ عمیرؓ بن عدی ایک نابینا صحابی تھے۔ وہ اُسے ان بُری حرکتوں اور بدکلامی پر بہت بار تنبیہہ کر چُکے تھے، لیکن وہ منع کرنے پر اور زیادہ گستاخیاں کرتی۔ 

ایک دن جب برداشت کی حدیں ختم ہو گئیں، تو رات کے ایک پہر وہ اُس عورت کے مکان میں داخل ہوئے اور تلوار کے وار سے اُسے جہنّم رسید کر دیا۔ بعدازاں، حضرت عمیرؓ مسجدِ نبویؐ پہنچے اور فجر کی نماز ادا کی۔ نبی کریمﷺ نے نماز کے بعد فرمایا’’کیا تم دُخترِ مروان کو قتل کر آئے ہو؟‘‘ اُنہوں نے عرض کیا’’جی ہاں! یارسول اللہﷺ‘‘۔ آپﷺ نے اُن کا نام عمیر بصیر (بینا) رکھ دیا۔

سَریّہ سالمؓ بن عمیر

… شوال، 2ہجری…

ایک سو برس سے زاید عُمر کا ابو عفک بن عمرو بن عوف نامی ایک یہودی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی، بدکلامی، استہزا، واہیات اشعار اور اشتعال انگیز تقاریر کرنا اُس کا مشغلہ تھا۔حضرت سالمؓ بن عمیر نہایت حسّاس اور رقیق القلب تھے۔ آپؓ نے اُسے بارہا منع کیا، لیکن وہ باز نہ آیا۔ 

آخر ایک رات جب وہ گرمی سے پریشان ہو کر کُھلے میدان میں سو رہا تھا، حضرت سالمؓ نے تلوار اُس کے سینے میں اُتار دی۔ اُس کی چیخ و پکار سُن کر آس پاس کے یہودی دوڑے آئے اور جب حضرت سالمؓ بن عمیر کو خون میں ڈوبی تلوار ہاتھ میں لیے کھڑے دیکھا، تو خاموشی سے لاش اُٹھا کر چلتے بنے۔

غزوہ ذِی اَمر

… محرّم، 3ہجری…

نبی کریمﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو ثعلبہ اور بنو محارب مدینے پر حملے کے ارادے سے نجد کے ایک مقام پر بڑی تعداد میں مسلّح افراد جمع کر رہے ہیں۔ آپﷺ نے مدینے کا انتظام حضرت عثمان بن عفّانؓ کے حوالے فرمایا اور خود ساڑھے چار سو مجاہدین کے ساتھ نجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ دشمن کو جب رسول اللہﷺ کے لشکر کے ساتھ تشریف لانے کی خبر ملی، تو خوف زَدہ ہو کر گردونواح کی پہاڑیوں میں روپوش ہو گئے۔ 

آپﷺ اُن کے جمع ہونے کے مقام پر تشریف لے گئے۔ جہاں میٹھے پانی کا ایک چشمہ تھا۔ وہاں آپؐ نے صفر کا پورا مہینہ قیام فرمایا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ قرب و جوار کے باشندوں کو اسلام سے روشناس کروایا جائے اور اُن سے خوش گوار تعلقات استوار ہو سکیں۔

کعب بن اشرف کا قتل

یہودی امراء اور رئیس نہ صرف اسلام دشمنوں کی سرپرستی کرتے، بلکہ خود بھی شرانگیزی میں پیش پیش رہتے۔ اُن میں ایک یہودی، کعب بن اشرف بھی تھا۔ اُس کا عرب بھر میں سودی کاروبار پھیلا ہوا تھا، جس کی بنا پر مکّے کے مُشرکوں اور مدینے کے انصار میں اُس کا خاصا اثر ورسوخ تھا۔ مدینے کے جنوب میں بنو نضیر کی آبادی کے ساتھ اُس کا قلعہ نُما محل تھا۔ جب اُسے بدر میں قریش سرداروں کے قتل کی خبر ملی، تو وہ مکّہ پہنچا اور گھر گھر جا کر تعزیت کی۔ نیز، مقتولین کی یاد میں جگہ جگہ دردناک مرثیے اور نوحے پڑھ کر قریش کے جذبات بھڑکاتا رہا ۔ 

پھر مدینہ منوّرہ واپس آکر حضورﷺ ، صحابۂ کرامؓ اور مسلمان خواتین کے بارے میں نہایت توہین آمیز، واہیات اور بے ہودہ اشعار کہنے شروع کیے، جنہیں مجالس اور بازاروں میں پڑھتا۔یہی نہیں، وہ نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کی بھی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ یوں اُس نے مدینے کی پُرامن فضا کو اپنی شرانگیزی سے زہر آلود کرنے کی سازش کی۔ وہ تمام اخلاقی حدود پار کر چُکا تھا، لہٰذا اُس کی شرپسندی کے سدّ ِباب کے لیے حضرت محمدؓ بن مسلمہ کی قیادت میں ایک دستہ، جس میں حضرت عبادؓ بن بشیر، حضرت حارثؓ بن اوس، حضرت ابو عبسؓ بن جبر اور حضرت ابو نائلہؓ شامل تھے، آنحضرتﷺ کی اجازت سے کعب کے محل پہنچے۔ 

ابو نائلہ نے آواز دی، تو کعب اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ تھا۔ آواز سُن کر کھڑا ہو گیا اور خُوش بُو میں رچا بسا باہر آ گیا۔ کچھ دیر تک وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ پھر ابو نائلہؓ نے کہا’’ کعب! تم نے جس قدر عمدہ خُوش بُو لگائی ہے، مَیں نے ایسی کبھی نہیں دیکھی۔ اگر اجازت ہو، تو تمہارا سَر سونگھ لوں۔‘‘ اور پھر یہی وہ لمحہ تھا، جب حضرت ابو نائلہؓ نے اُس کی گردن اپنی سخت گرفت میں لے لی اور مزاحمت سے پہلے ہی ساتھیوں نے اُس کے سَر پر تلواروں سے وار کر دیئے۔ وہ زخمی ہو کر نیچے گرا، تو حضرت محمّدؓ بن مسلمہ نے اپنی گُپتی(وہ تلوار جو دستی چھڑی میں مخفی ہوتی ہے) اُس کے پیٹ میں گُھسا دی، جو جسم چیرتی ہوئی زیرِ ناف نکل گئی۔ 

پھر اُس کا سَر کاٹا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ اس موقعے پر آپﷺ نے دستے میں شریک صحابۂ کرامؓ کو دُعائیں دیتے ہوئے فرمایا’’یہ چہرے مبارک ہوں‘‘(ابنِ ہشام)۔ یہ سَریّہ14ربیع الاوّل 3ہجری کو پیش آیا۔ کعب بن اشرف کا قتل یہودیوں کے لیے کسی المیے سے کم نہ تھا، جس سے یہودی سہم گئے، جب کہ فسادی اور شرپسند یہودیوں پر واضح ہو گیا کہ اب مسلمان طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کریں گے۔ اس کے بعد طویل مدّت تک مسلمان مدینے کے اندرونی خطرات اور مشکلات سے محفوظ رہے۔

غزوۂ بحران

… ربیع الثانی، 3ہجری…

بحران، مدینے سے96میل دُور، الفرع کے نواح میں ایک مقام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی کہ اسلام دشمن مدینے پر حملے کے لیے بحران میں جمع ہو رہے ہیں۔ آپﷺ تین سو صحابہ کرامؓ کے ہم راہ اُس طرف روانہ ہو گئے، لیکن آپؐ کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگ منتشر ہو چُکے تھے۔ چناں چہ کسی لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔ آپﷺ اس مقام پر کچھ روز قیام کے بعد مدینہ منوّرہ واپس تشریف لے آئے(طبقات ابنِ سعد)۔

سَریّہ زید بن حارثہؓ

… جمادی الآخر، 3ہجری…

ابو سفیان کو جزائرِ عرب میں قریش کی کھوئی عزّت و وقار کی بحالی اور اہلِ مکّہ کے آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مسلمانوں سے ایک بھرپور جنگ کی اشد ضرورت تھی، جس کے لیے معاشی حالات کی بہتری، سامانِ حرب اور دیگر اشیاء کی وافر مقدار میں خریداری ناگزیر تھی۔ اہلِ مکّہ گرمیوں میں شام سے، جب کہ سردیوں میں حبشہ اور یمن سے تجارت کرتے تھے۔ چوں کہ مکّے میں گرمیوں کا موسم طویل ہوتا ہے، سو، اُن کی زیادہ تر تجارت کا دارومدار شام پر تھا۔ بدر کی جنگ کے بعد سے شام کی جانب کوئی تجارتی قافلہ نہیں گیا تھا۔ لہٰذا یہ طے کیا گیا کہ صفوان بن اُمیّہ کی قیادت میں ایک تجارتی قافلہ قدیمی راستے کی بجائے کسی اور راستے سے بھیجا جائے۔ 

اسود بن عبدالمطلب نے مشورہ دیا کہ عراق کا راستہ اختیار کیا جائے، جو مدینے کی سرحدوں سے بہت دُور، نجد سے شام جاتا ہے۔ یہ راستہ بہت طویل تو تھا، لیکن اُن کے لحاظ سے محفوظ تھا۔تاہم، قافلہ روانہ ہی ہوا تھا کہ آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع مل گئی۔ ہوا یوں کہ ایک صحابی، حضرت سلیطؓ بن نعمان اور اُن کے دوست، نعیم بن مسعود (جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ نشے میں دُھت نعیم نے قافلے کی تفصیل اور مقاصد بیان کر ڈالے۔ 

حضرت سلیطؓ کو جب یہ معلوم ہوا، تو نہایت برق رفتاری سے مدینے کی جانب روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر آنحضرتﷺ کو تفصیل سے آگاہ کردیا۔آپﷺ نے فوری طور پر حضرت زیدبن حارثہؓ کی قیادت میں ایک سو مجاہدین کا دستہ روانہ کر دیا۔ اہلِ قافلہ ایک چشمے پر پڑائو ڈالے ہوئے تھے کہ مسلمان آندھی طوفان کی طرح اچانک اُن کے سروں پر آن پہنچے۔جسے دیکھ کر صفوان بن اُمیہ اور قافلے کے سب لوگ بھاگ نکلے، تاہم، فرات بن حیان اور دیگر دو افراد گرفتار ہوئے۔ مالِ غنیمت میں دیگر سامان کے علاوہ، ایک لاکھ درہم مالیت کی چاندی ہاتھ آئی۔ بعدازاں، فرات بن حیان نے حضورﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا(رحمت اللعالمین۔ 219/2)۔ (جاری ہے)

تازہ ترین